چلتے جاتے ہیں جدھر کو راہ نما جاتے ہیں۔
نجانے کیوں لوگ اب بھی اپنے دل کو ٹٹولتے نہیں۔۔۔کیا کوئی ایسا ہے جو آپ کے مسائل کو آپ سے زیادہ سمجھتا ہے ، کاغذی عبارت کی حد تک اس دعوی کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی آپ کا آپ کے اپنے آپ سے زیادہ خیال رکھتا ہے ، لیکن حقیقی دنیا میں ایسا ناممکنات میں سے ہے ، بحثیت قوم ہمیں ان مسائل کو سمجھنا ہو گا جن میں ہم گھرے ہوئے ہیں اور اپنی ذات کی حد تک جہاں تک مکمن ہو کاوش بھی کرنا ہوگی کہ ان حالات میں بہتری آئے جن حالات میں ہم موجود ہیں۔۔۔۔۔
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے، نجانے ہماری زندگی میں پاکستان پر بہار آئے گی یا نہیں اس کی خبر نہیں لیکن ہمیں کوشش کرنا ہے کہ آنے والوں کو اس سے بہتر پاکستان دیکر جائیں۔۔۔۔
اپنے مستقبل کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے ، ان تاجروں سے بچ بچا کے جو ہماری رائے ہم سے خریدنا چاہتے ہیں، جو ایک دو آنکھوں کو خواب دیکر باقی بستی کی آنکھوں میں اندھیرا جھونک دیتے ہیں۔۔وہ کتنے لوگ ہیں جن کو ہم میر کارواں کے روپ میں آزما چکے ہیں، ہمارے مسائل جوں کہ توں رہتے تو پھر بھی غنیمت تھی اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔۔۔۔۔کیا ملک میں تعلیم کا حصول آسان ہو گیا، یا معلمین کے مسائل حل ہو گئے، جو بجلی جس کا ہر گھر کو عادی بنایا گیا تھا ، وہ اجالا دے کر چھین لیا گیا، لوگ کو سی این جی پر لگا کر اس کے کھو جانے کا عندیہ دیا گیا۔۔۔۔ہماری محرومیاں بڑھتی ہی چلی گئی ۔۔۔۔ہونا تو یوں چاہیے کہ ملک و قوم کے راہبر کہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں جو مجھ سے غلطیاں ہو گئی تم نہ کرنا اور اس ملک کی باگ ڈور سنبھالو، لیکن اقتدار کا لہو ایسا منہ کو لگا کہ ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھ میں تو دم ہے کی تفسیر بنے لوگ اگلی باری کے چکر میں ہیں۔۔۔
اور ہم سا نادان بھی کون ہو گا جو آزمائے کو آزمانا چاہے گا، جو ایک ہی فلم کے ایک ہی سین کو تیسری دفعہ دیکھنا چاہتا ہے اور خواہش ہے کہ اب اس میں بہتری آئے گی۔۔۔۔وہ جو کسی نے کہا تھا کہ
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں
ہماری کوئی سوچ ہے کہ اس ملک کی تقدیر ہم بھی تو ہو سکتے ہیں۔ یہ کل کا باکڑہ بلاول کیونکر، ۔۔کون بدلے گا اس بادشاہی نظام کو ۔۔۔۔
کیا جمہوریت میں کام کرنے والوں کی عزتِ نفس مجروع ہوتی ہے، بادشاہ کے دربار میں تو سب کچھ جائز ہے، دل چاہے تو ایک ہی رات میں محلوں کی بنا رکھ دی جائے ، دل چاہے تو باغ اجاڑ دئے جائیں۔ ۔۔
بادشاہ نطام نہیں دیتے بس حکم دیتے ہیں، اور جن رسن بستہ غلاموں کو صیاد سے الفت ہو جائے تو پھر اس پنچھی کا کیا کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں اب بھی بادشاہ سلامت کی دھول اڑاتی سواری میں اپنی قوم کی شان و شوکت نظر آتی ہے، اب بھی ظل الہی پر ہم نے اپنا علم، دین اور عزت وار رکھی ہے، کوئی حرف سخت ان کی بارگاہ میں کوئی اچھال دے تو ہمارے بدن پر چوٹ پڑتی ہے۔۔۔اس غلامی کے مرض نے ہم سے آزادی کی خو بو ہی چھین لی ہے۔۔۔۔ریوڑ کی بھیڑ بکریاں چند کتے ہانکتے پھرتے ہیں۔۔۔۔
کوئی ایسا نسخہ کیمیا کہاں سے آئے جو میرے بدن کو ایسی تقویت دے کہ میں پھر سے آزادی حاصل کر سکوں۔۔جاگیر داروں، سرمایہ داروں، امرا کے آہنی ہاتھوں سے اپنی عزتِ نفس بچا سکوں۔۔۔۔
وہ گالی جو ٹریفک کا سارجنٹ مجھے راستے سے ہٹاتے ہوئے دیتا ہے، میں اس پر مڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔۔۔۔کہ اب مکمل مسمار ہو چکا۔۔۔۔میں غلام ابن غلام ہوں۔۔۔۔۔