Home Uncategorized محبت میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔

محبت میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔

0
محبت میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر ویلنٹائن ڈے ایک مزیدار موضوع بنا ہوا ہے، لوگ بساط بھر اس کے اسلامی ، اخلاقی ، معاشرتی پہلووں پر لب کشا ہیں؟ میں نے پچھلے پانچ سال یورپ میں ویلنٹائن ڈے کی تاریخ گذاری ہے اور اس تہوار کو اردگرد دیکھ رکھا ہے ، اس لئے ان مثالوں سے شاید وطن میں ویلنٹائن ڈے کی آگ پر کچھ پانی ڈالا جا سکے۔
ویلنائن ڈے عام تہواروں کی طرح دکانوں اور شاپنگ مالز پر کچھ رنگوں کا اضافہ کرتا ہے، دل کی مشہور زمانہ تصویر بغیر تیر کے مختلف سٹالز پر آویزاں کر دی جاتی ہے۔ تحائف بیچنے والی کمپنیاں اپنے تحائف بیچنے کے لئے دل کے ساتھ دس فیصدکمی یا بیس فیصد کم کے ٹیگ بھی لگا چھوڑتے ہیں۔ کیونکہ وہاں سارا سال ہی محبت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اس لئے اس دن پر ہلڑ بازی، امن و امان کی خرابی، شور شراپا، احتجاج، اعتراض وغیرہ کی فضا بھی موجود نہیں ہوتی۔ پھول وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں اور نارمل دنوں جیسی قیمت ہی پاتے ہیں۔ میڈیا کے نمائندے سڑکوں پر کھڑے ہو کر جوڑوں کے انٹرویو نہیں کرتے۔۔۔کچھ ایسا نہیں ہوتا کہ چودہ فروری کے انقلاب کی گونن سنائی دے۔
مگر جونہی ماہ فروری آغاز ہوا ہے، فیس بک پر یوم حیا کی پوسٹ نظر آئی جس سے اندازہ ہوا کہ ویلنٹائن ڈے آیا چاہتا ہے۔ فیس بک پر اس کے حق میں اور مخالف صف آرا ہونا شروع ہو چکے ہیں، وہ احادیث اور قرآنی ایات جن میں فحاشی اور عریانی پر وعیدیں سنائی گئی ہیں لوگوں کی دیواروں پر چسپاں ہونے لگی ہیں، کچھ دل جلے اس کو تجدید عہد وفا مانتے ہوئے اس دن کے اخلاقی جواز و ثمرات کے حق میں مدح سرا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے بیوی ، ماں ، باپ بھائی وغیرہ ، آپ اس سے جنس مخالف کی محبت مراد کیوں لیں۔
ان خبروں کا رنگ اس خبر سے اور بھی دو آتشہ ہو جاتا ہے جب یہ سنا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت نے ویلنٹائن ڈے پر پابندی عاید کر دی ہے۔ ان کو موقف ہے کہ ایسے لغو تہواروں کی ہمارے معاشرے میں کوئی اجازت نہیں۔
اس ساری گفتگو کا نتیجہ ثنااللہ ظہیر کے اس شعر جیسا ہی نکلتا ہے۔ کہ
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے

ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اسی دن کو ہائی لائٹ کرتے چلے جاتے ہیں، نیوٹن کے تیسرے قانون کی قوت سے عمل اور ردعمل کے نتیجے میں جو شورشرابا برپا ہوتا ہے اس سے محفلوں میں ایک نئی جان پڑ جاتی ہے۔ مشرقی تہذیب و ثقافت کے علمبردار صف آرا ہو کر لوگوں کو احساس دلاتے ہیں کہ تجھے اس قوم نے پالا تھا آغوش محبت میں وغیرہ۔۔۔۔۔اور محبت کا دم بھرنے والے جو فی زمانہ وافر مقدار میں موجود ہیں انہیں سرکاری پابندیاں عشق کے راستے کی پہلی رکاوٹ لگتی ہیں، اور وہ ان طعنوں مہنوں کو محبت کے سر سرخاب کے پروں کا سا گردانتے ہیں۔

اس سارے شور میں ایسے تہواروں کے ریلے میں بہہ جانے والے نوجوانوں سے گلہ کرنے والوں کو ایک لمحے کو ٹھہر کو سوچنا ہو گا کہ ہمارے ہاں ایکٹوٹی کے نام پر کیا کچھ موجود ہے؟ آپ دس پروفیشنل کام کرنے والوں سے پوچھ کر دیکھ لیں، ان کے معمولات میں جسمانی ورزش تک بھی شامل نہیں، تہوار کے نام پر دو عیدیں، کچھ سرکاری چھٹیاں جن میں لوگ گھر سے باہر نکلنے کی بجائے سونا اور آرام کرنا ہی پسند کرتے ہیں، ایسے میں لوگوں کو رنگ برنگی ایکٹوٹی کا لالی پاپ بہت سہانا لگتا ہے۔ بیگمات نے اپنی سالگرہ، شادی کی سالگرہ اور ویلنٹائن ڈے پر تحفے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو ہمارے میڈیا میں اس دن کی محبت کے حوالے سے خدمات ہی اتنی گنوائی جاتی ہیں کہ لگتا ہے آج کے دن بیگم سے محبت کا اظہار نہ کیا تو نکاح پر کوئی اثر نہ پڑ جائے؟

ایسے تہواروں کی سرپرستی میں ہمارا میڈیا پیش پیش ہے، پچھلے سال کی نشریات میں مختلف ٹی وی چینلز نے اس دن کے حوالے سے خصوصی نشریات کا اہتمام کیا، ایک معروف اینکر تو اپنا سارا سیٹ فوڈ سٹریٹ لاہور کے کونے پر اٹھا لائے اور لائیو پروگرام کے ذریعے محبت پھیلاتے رہے۔ جب محبت کی اس طرح عوامی سرپرستی ہو رہی تو لوگ کیوں، کب اور کیسے جیسے سوالوں میں نہیں الجھتے ، وہ کہتے ہیں جی دیکھیں محبت تو ایک صاف ستھرا جذبہ ہے، اور اس کا اظہار کرنے میں کیا برائی ہے، تو اس سے جو رائے عامہ بنتی ہے اس کی روشنی میں دل کی تصویر میں تیر مار لینے میں آخر کیا مضائقہ ہے۔
دوسری طر ف یہ بات پریشان کن اس لئے بھی ہے کہ لڑھکتے پتھروں کی اوقات سے سب آشنا ہیں، کیا ہمارا کام ہر نئے کام پر مزاحمت پیش کرنا ہے؟ ہمارے پاس نئی نسل کو مصروف کرنے کا منصوبہ کیا ہے؟ ماں کا دن، باپ کا دن اور اب محبت کا دن ، چلئے کوئی دن نہ منایا جائے؟ موبائل فون ، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا ، اس بہاو میں اپنے پاوں مضبوطی سے مشرقی تہذیب کی مٹی پر جمائے رکھنے میں جو دشواری ہے اسے سمجھنا ہو گا۔ نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ نئی مصروفیات بنانا ہو گی ، پھر ایسے دن ایسے آئیں گے جیسے کبھی آئے نہ ہوں۔ اور اگر ہم بازار کی ہر گالی کا جواب دینے میں مصروف رہے تو ہماری منزل کہاں ہو گی کس کو خبر ہے۔۔۔۔۔
اور اس دن میں محبت ڈھونڈنے والوں سے ہم تو یہی کہیں گے۔۔۔
کوئی تعویذ دو رد بلا کا
محبت میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔

اسی موضوع پر میرا دوسرا بلاگ بھی ملاحظہ ہو ویلنٹائن ڈے اور یوم حیا وغیرہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.