دن سال اور مہینہ یاد نہیں۔۔۔لیکن اندازہ ہے کہ میں کوئی چھٹی ساتویں جماعت کا طالب علم ہوں گا۔۔۔۔ہمارے حلقہ انتخاب سے بیگم شہناز جاوید پیپلز پارٹی کی امیدوار تھیں۔۔۔الیکشن کے دن تھے اور وہ گھر گھر ووٹ مانگنے کے لئے ہمارے گھر بھی آئیں۔۔۔۔میں نے نجانے کہاں سے مسلم لیگ کا ایک جھنڈا نکالا اور لہرانا شروع کردیا۔۔۔۔ماں جی نے روکا بھی لیکن دل بنا سوچے سمجھے مسلم لیگی تھا۔۔۔۔۔ایک غیر شعوری تقسیم کو جو دائیں، اور بائیں کو سمجھے بغیر ہماری دیہاتی روایت کا حصہ تھی اس نے نجانے کہاں سے مجھ میں ایک مسلم لیگی روح پھونک دی تھی۔۔۔۔سیاسی شعور اس وقت کہاں ہو سکتا تھا۔۔۔بس ایک ضد ، انا، اور اپنے خیالات کو ٹھیک سمجھنے کا بچپنا تھا۔۔۔۔مجھے مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کے منشور سے بھی کوئی غرض نہ تھی ۔۔۔۔بس یہ تھا کہ مسلم لیگ ہی پاکستان بچانے والی یا بنانے والی تنظیم ہے۔۔۔کیونکہ سارے بڑے لیڈر جنہوں نے پاکستان بنایا کسی نہ کسی طرح اسی پارٹی کے رکن تھے۔۔۔کہاں قائد اعظم ، علامہ اقبال کی پارٹی اور کہاں ذوالفقار بھٹو کی پارٹی۔۔۔۔۔۔
سال پر سال گذرتے رہے۔۔۔اور میں دل ہی دل میں مسلم لیگ کو سپورٹ کرتا رہا اور ان کو پیپلز پارٹی سے بہتر ہی سمجھتا رہا۔۔۔۔پھر کچھ نصاب سے باہر پڑھنے کا شوق ہواتو آہستہ ان بنیادوں کا اندازہ ہوا جن پر ایک پارٹی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔۔۔کیسے لوگ اکھٹے ہوکر ایک فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔۔۔۔بھٹو کی تقاریر اور اس کے متعلق گفتگو جو ہمارے پڑھے لکھے دوست کیا کرتے تھے اس سے اندازہ ہوا کہ وہ بھی پاکستان کے خلاف تو ہرگز بھی نہ تھا ۔۔۔تو پھر یہ مخالفت کیسی؟؟؟؟
لیکن پھر بھی دل کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کی مکمل حمایت سے گریز ہی کرتا رہا، نہ کبھی کسی سیاسی جماعت کے اجتماع میں شریک ہوئے نہ کسی سیاسی شخصیت سے ملنے کی ضرورت جانی۔۔۔وہ اپنے تیئیں اپنے آپ کو جو بھی سمجھتے ہوں لیکن میں نے کبھی بھی ان کی موجودگی کو محسوس نہ کیا۔۔۔۔
لیکن آج عمر کی جس منزل پر ہوں، دنیا کے دس بارہ ملک دیکھ چکا ہوں اور تین سالوں سے ڈنمارک میں مقیم ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ میرا غیر سیاسی رویہ اور بچپنا ٹھیک نہ تھا۔۔۔اسی کی وجہ سے نااہل حکمران ہمارے ایوانوں پر قابض ہو جاتے ہیں، اسی کیوجہ سے موروثی سیاست کو طول ملتا ہے کیونکہ سیاست نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے اور ہم جیسے لوگوں کی بے نیازی بھی نسل در نسل آگے چلتی جاتی ہے۔۔۔اب جب میں نے طے کیا تو میرے سامنے موجود جو جماعتیں سیاست کے افق پر اپنا وجود رکھتی ہیں، ان میں ، ایم کیو ایم، اے این پی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اس کی بچہ پارٹیاں، ۔۔۔ان سب پارٹیوں میں تحریک انصاف کو عمران خان کی جماعت ہی سمجھا جاتا رہا۔۔۔جو پچھلے سولہ سالوں میں موجود تو تھی لیکن اپنے وجود کا احساس نہ رکھتی تھی۔۔۔لیکن داد دینی چاہیے عمران خان کو جو اتنے سال ڈٹا رہا اور بالآخر تحریک انصاف کے ذکر کے بغیر پاکستان کی سیاست کا ذکر ادھورا ہے۔۔۔۔۔۔اب کتنے جلسوں کو ووٹ میں بدلا جا سکتا ہے، کس کو کتنی ٹکر ملے گی اس سے ہٹ کر تحریک انصاف نے اپنے جماعتی الیکشن کے ذریعے عوام کو جس طرح سے اپنے ساتھ جوڑا ہے تو اس ایک قدم نے پارٹی کی بنیاد کو اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ آنے والے کئی
موسموں کی بارشوں سے اب پارٹی کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔۔۔۔۔۔
میں اپنے دل کو قائل کرچکا ہوں کہ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے والی جماعت سمجھ کر دوسری سیاسی جماعتوں کی مخالفت کا بچپنا اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے۔۔۔۔اور آج پاکستان میں کام کرنے والی تقریبا ساری جماعتیں اپنے اپنے انداز میں بہتر پاکستان بنانے میں کوشاں ہیں، ان سبھی جماعتوں کی کتابی کاوشوں، اخباری کہانیوں اور زمینی حقائق کو منطق کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھتا ہوں تو مجھے ان سب میں تحریک انصاف بالا نظر آتی ہے، کیونکہ میں ابھی رسک لینے کے خوف میں جیت کا پہلو دیکھ سکتا ہوں، ابھی میری عمر اور تجربہ میری خوش گمانیوں کا قاتل نہیں ہے اس لئے مجھے تحریک سے ایک امید وابستہ ہے۔۔۔ایک امید کہ تحریک انصاف پاکستان کو بدل پائے گی۔۔۔۔وہ کام کو اس سے
سال پر سال گذرتے رہے۔۔۔اور میں دل ہی دل میں مسلم لیگ کو سپورٹ کرتا رہا اور ان کو پیپلز پارٹی سے بہتر ہی سمجھتا رہا۔۔۔۔پھر کچھ نصاب سے باہر پڑھنے کا شوق ہواتو آہستہ ان بنیادوں کا اندازہ ہوا جن پر ایک پارٹی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔۔۔کیسے لوگ اکھٹے ہوکر ایک فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔۔۔۔بھٹو کی تقاریر اور اس کے متعلق گفتگو جو ہمارے پڑھے لکھے دوست کیا کرتے تھے اس سے اندازہ ہوا کہ وہ بھی پاکستان کے خلاف تو ہرگز بھی نہ تھا ۔۔۔تو پھر یہ مخالفت کیسی؟؟؟؟
لیکن پھر بھی دل کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کی مکمل حمایت سے گریز ہی کرتا رہا، نہ کبھی کسی سیاسی جماعت کے اجتماع میں شریک ہوئے نہ کسی سیاسی شخصیت سے ملنے کی ضرورت جانی۔۔۔وہ اپنے تیئیں اپنے آپ کو جو بھی سمجھتے ہوں لیکن میں نے کبھی بھی ان کی موجودگی کو محسوس نہ کیا۔۔۔۔
لیکن آج عمر کی جس منزل پر ہوں، دنیا کے دس بارہ ملک دیکھ چکا ہوں اور تین سالوں سے ڈنمارک میں مقیم ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ میرا غیر سیاسی رویہ اور بچپنا ٹھیک نہ تھا۔۔۔اسی کی وجہ سے نااہل حکمران ہمارے ایوانوں پر قابض ہو جاتے ہیں، اسی کیوجہ سے موروثی سیاست کو طول ملتا ہے کیونکہ سیاست نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے اور ہم جیسے لوگوں کی بے نیازی بھی نسل در نسل آگے چلتی جاتی ہے۔۔۔اب جب میں نے طے کیا تو میرے سامنے موجود جو جماعتیں سیاست کے افق پر اپنا وجود رکھتی ہیں، ان میں ، ایم کیو ایم، اے این پی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اس کی بچہ پارٹیاں، ۔۔۔ان سب پارٹیوں میں تحریک انصاف کو عمران خان کی جماعت ہی سمجھا جاتا رہا۔۔۔جو پچھلے سولہ سالوں میں موجود تو تھی لیکن اپنے وجود کا احساس نہ رکھتی تھی۔۔۔لیکن داد دینی چاہیے عمران خان کو جو اتنے سال ڈٹا رہا اور بالآخر تحریک انصاف کے ذکر کے بغیر پاکستان کی سیاست کا ذکر ادھورا ہے۔۔۔۔۔۔اب کتنے جلسوں کو ووٹ میں بدلا جا سکتا ہے، کس کو کتنی ٹکر ملے گی اس سے ہٹ کر تحریک انصاف نے اپنے جماعتی الیکشن کے ذریعے عوام کو جس طرح سے اپنے ساتھ جوڑا ہے تو اس ایک قدم نے پارٹی کی بنیاد کو اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ آنے والے کئی
موسموں کی بارشوں سے اب پارٹی کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔۔۔۔۔۔
میں اپنے دل کو قائل کرچکا ہوں کہ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے والی جماعت سمجھ کر دوسری سیاسی جماعتوں کی مخالفت کا بچپنا اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے۔۔۔۔اور آج پاکستان میں کام کرنے والی تقریبا ساری جماعتیں اپنے اپنے انداز میں بہتر پاکستان بنانے میں کوشاں ہیں، ان سبھی جماعتوں کی کتابی کاوشوں، اخباری کہانیوں اور زمینی حقائق کو منطق کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھتا ہوں تو مجھے ان سب میں تحریک انصاف بالا نظر آتی ہے، کیونکہ میں ابھی رسک لینے کے خوف میں جیت کا پہلو دیکھ سکتا ہوں، ابھی میری عمر اور تجربہ میری خوش گمانیوں کا قاتل نہیں ہے اس لئے مجھے تحریک سے ایک امید وابستہ ہے۔۔۔ایک امید کہ تحریک انصاف پاکستان کو بدل پائے گی۔۔۔۔وہ کام کو اس سے
پہلے پاکستانی جماعتیں نہ کر پائیں۔۔۔تحریک کر پائے گی۔۔۔