
کتنے سالوں سے کتنی بڑی بڑی کمپینیوں والے ، جن کے پاس قابل سے قابل گوہر شناس لوگ ہوتے ہیں، اس ہیرے کی قدر کیونکر نہیں پہچان پائے۔۔۔۔۔۔ہمارے فلاں دوست جو امریکہ کی کسی بڑی یونیورسٹی میں بڑا نام کما چکے ہیں، کیونکر علی الاعلان ایسا نہیں کہتے کہ ان سے قابل شخص بھی اس دنیا میں موجود ہے۔۔۔۔۔
بہت سالوں بے شمار خوش گمانیوں کے خواب بنتا ہوں، ایک کے بعد ایک منصوبے کی بنتیوں میں کھو جاتا ہوں، وہ جو مقصود ہے وہ کہیں نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔وہ جس کی میں آرزو کرتا ہوں وہ مجھے ملتا کیوں نہیں؟؟؟؟
اپنے پروردگار سے بھی جھگڑتا ہوں، اپنی ذات میں بھی پریشان رہتا ہوں۔۔۔۔خواہشوں اور خوابوں کی جس بستی میں بستا ہوں، ، اب تو اس کی دیواریں بھی گرا چاہتی ہیں،
بڑھاپے میں نظر کی کمزوری جو دنیا دکھاتی ہےوہ آنکھ والوں پر کبھی روشن نہیں ہو پاتا۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ کچھ منظر بڑے واضح اور صاف نظر آ رہے ہیں، وہ لوگ جو ہمارے فقروں کی زد میں تھے ۔۔۔اب کرسیوں پر براجمان ہیں، اور ہمارے آنے والے دنوں کی داستاں ، گذرنے والے بتیس سالوں سے شاید بہت مختلف نہ ہو؟؟؟؟؟؟
ہاں اب کچھ مایوسی سی تو رہے گی۔۔۔زندگی ضائع کر دینے کا دکھ، کچھ نہ کرنے کا ملال۔۔۔۔وہ کتنے کام تھے جو ہمیں کرنے تھے۔۔۔لیکن ہم کر ہی نہیں پائے۔۔۔گردش دوراں کبھی پلٹے تو۔۔۔۔۔ان سب مروت کے رشتوں سے مکر جاوں جو دکھاوے اور جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہ تھے۔۔۔۔
کبھی پلٹے تو زندگی کو کسی اور رنگ سے دیکھوں۔۔۔۔۔۔۔
کتنے بہانے ہیں کچھ بھی نہ کرنے کے۔۔۔
دل چاہتا کہ بس سب کچھ مل جائے اورکچھ کام نہ کرنا پڑے۔۔۔۔
دل چاہتا ہے۔۔۔۔
واہ۔۔۔ کیا دل چاہتا ہے۔۔۔۔