اگر اس سیکورٹی چیک کا مقابلہ کسی اور انٹر نیشنل ائیر پورٹ سے کیا جائے تو ۔۔۔۔آپ ڈائیریکٹ متعلقہ ہوائی جہاز کے کاونٹر تک جاتے ہیں۔ جہاں سے آپ کا سامان بک کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس بکنگ کا سامان موجود نہیں تو اس کاونٹڑ پر جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ خودکار مشین سے اپنا بورڈنگ پاس نکالیں اور سیکورٹی گیٹ کی طرف چلے جائیں۔ وہاں آپ کا بورڈنگ پاس سکین کرتے ہوئے آپ کا سامان سکینر سے گذارا جاتا ہے۔ اگر سکینر سے گذرتے ہوئے سکینر کچھ نشاندہی کرے تو آپ کی جامہ تلاشی بھی ہوسکتی ہے۔ وہاں سے گذر کر ایمگریشن کے کاونٹڑ پر جایا جاتا ہے اور پھر ائیر لائن کے گیٹ پر بورڈنگ پاس دیکھا جاتا ہے۔ ۔۔
پورٹر ٹیگ لے آیا ہے۔ یہ ٹیگ کاونٹڑ پر موجود شخص لگاتا ہے۔ |
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کیونکر اپنایا نہیں جاسکتا ؟۔۔۔پاسپورٹ کنٹرول یا ایف آئی اے کا کاونٹڑ بالکل شروع میں کردیا جائے، اور ساتھ ہی سامان سکینر سے بھی گذار دیا جائے۔ اس کے بعد کہیں بھی پاسپورٹ دوباہ ، سہہ بارہ نہ دیکھا جائے، سامان جہاں تولا جاتا ہے اس بیلٹ کو کار آمد بنا کر وہیں سے بکنگ کے لئے روانہ کر دیا جائے تاکہ مسافر ایک کاونٹر سے دوسرے کاونٹر تک جانے کے لئے رش پیدا نہ کریں۔ ۔۔ایک مسافر کی بکنگ کے وقت کو معیاری کیا جائے اور اگر کوئی کام کرنے والا درمیان میں شفارش یا رشوت کے لئے لوگوں کو صبر کی سولی پر لٹکائے تو ایسے لوگوں کو کڑ ا احتساب کیا جائے۔
ابھی کل کے سفر میں ہمارے ہمسفر سید عامر صاحب نے ایک دو قلی حضرات کو لوگوں کا سامان جلدی نکلوا دینے کے لئے رشوت طلب کرتے، ان کا سامان رکھواتے اور نذرانہ وصول کرتے دیکھا تو رہا نہ گیا۔۔اور وہاں موجود ایک آفیسر کی توجہ اس طرف دلوائی تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہے تو عامر صاحب نے جھٹ سے اپنے فون سے بنائی ہوئی تصاویر دکھا دیں۔ ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد آفیسر نے جواب دیا کہ ان تصاویر میں روپے تو نظر نہیں آ رہے۔
باقی سہولیات ، صفائی ، انتطامیہ کا رویہ وٖغیرہ کے معاملات کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھے جائیں۔ اگر صرف اور صرف ان دس مراحل کو کم کرکے چار پانچ پر لے آیا جائے تو کیا کہنے۔۔۔۔۔
میری مٹھی میں کیا ہے؟؟ ناز پان مصالحہ؟ |
جہاں یہ قلی موجود ہے۔ اس جگہ تک کسی پورٹر کو جانے کی اجازت نہیں۔ |
نوٹ۔ یہ تحریر 15 اکتوبر کی رات کو آغاز کی تھی، اس لئے واقعات کو پندرہ اکتوبر 2014 کے حوالے سے جانچا جا سکتا ہے۔ تصاویر کے لئے سید عامر صاحب کا شکریہ۔