چھوٹی سی سڑک سے لیکر بڑی شاہراہ تک کہیں بھی لوگوں کو پتہ تک نہیں کہ ٹریفک کے قوانین کیا ہیں، لاہور ائرپورٹ سے نکلتے ہی جونہی گول چکر میں گاڑی داخل کرتے ہوئے میری گاڑی کے ڈرائیور نے گول چکر میں پہلے سے موجود گاڑی کی پرواہ کئے بغیر ہیڈ لائٹ سے اشارہ کیا، ایک دفعہ ہارن بجایا اور گاڑی گول چکر میں گھسا دی، ، اب یہ دوسری گاڑی والے پر تھا کہ وہ اپنی گاڑی کس طرح سنبھالتا، اس نے جواب آں غزل کے طور پر ایک ہارن بجایا اور پھر دونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے بے نیاز اپنی اپنی راہ چل دیں۔
سڑک پر لگی پکی لائنیں روتی چلاتی رہتی ہیں کہ کچھ ہمارا خیال کرو، لیکن کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ کالی سڑک کے ماتھے پر یہ سفیدی کے دھبے کیونکر ہیں۔۔۔دائیں یا بائیں ہاتھ سے گذرنا کس کو یاد ہے ، بس جہاں جگہ ہے وہاں سر گھسا دو، آہستہ آہستہ کچھ نہ کچھ جگہ بن جائے گی۔۔۔۔ٹریفک کے سارجنٹ چوراہوں پر چالان کی کاپیاں تھامے منتظر ہیں کہ کوئی قانون کو تھوڑا سا توڑے تو وہ اس کو جرمانہ کر سکیں، ٹریفک کا بہاومتاثر ہوتا ہو تو ہو لیکن سر سڑک احتساب ہوگا تو ہی جان خلاصی ہو گی ۔
ہمارے پڑھے لکھے ، طبقے کو بالخصوص سمجھنا ہو گا کہ اصولوں کی پاسداری کے علاوہ کوئی اور آپشن ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔۔۔۔مزید کھلی سڑکیں کتنی اور کھلی ہو سکتی ہیں، کتنے پل اور بنائے جا سکتے ہیں؟ ان سے ہٹ کر اگر ہم ترتیب میں آ جائیں، قطار میں لگنا سیکھ جائیں، تھوڑے صبر کا مظاہرہ کریں تو سبھی کو سہولت ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان باتوں کو پڑھی لکھی اکثریت سمجھتی ہے ، لیکن جونہی سڑک پر نکلتی ہے ان کے اندر کا ان پڑھ، اور جاہل ڈرائیور باہر آ جاتا ہے ۔۔۔میرے سوچ کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد لوگ ٹریفک قوانین سے نا آشنا ہیں۔ ان کی بڑھی وجہ ٹریفک قوانین سے متعلق تعلیم کا نہ ہونا ہی ہے۔۔۔ٹریفک کے متعلق کبھی پڑھایا یا بتایا ہی نہیں جاتا۔۔۔۔۔اور ڈرائیونگ کا لائیسنس لینا اتنا آسان ہے کہ اندھا بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔۔۔۔پاکستان میں کوئی ڈرائیور اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ کس عذاب میں گاڑی چلاتا ہے۔۔کیونکہ اس کو ہر طرف سے اپنی گاڑی کو خود ہی بچانا ہے۔۔۔کوئی من چلا دائیں بائیں سے ۔۔۔یا فٹ پاتھ کے اوپر سے گذر کر کہیں سے بھی آپ کے سامنے آ سکتا ہے۔۔۔لوگ ہارن دو اور راستہ لو کے گھٹیا اصول پر عمل پیرا ہیں۔۔۔لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی قانونی طریقہ کہ کسی کو راہ سے ہٹایا جائے۔۔۔۔سامنے سے لائٹ کے اشارے کا مطلب بھی نجانے کیا ہے۔۔۔من چلے ڈرائیور ایک کلومیٹر دور سے ہی لائیٹوں سے اشارہ شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ان کا خیال ہے کہ اس کا مقصد راستہ صاف کروانا ہے۔۔۔۔۔۔
انتہائی افسوس کے بات یہ ہے کہ روزانہ درجنوں لوگ ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔۔۔اور ہمارے لوگ اس کو خدا کی رضا سے تعبیر کرکے خاموش ہو جاتے ہیں۔۔خدا کے لئے اس مجرمانہ غفلت سے باز آئیے۔۔۔اور طے کیجئے کہ ہم ان اصول و ضوابط کو اپنائیں جن سے اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاطت کی جا سکے۔۔۔
میں اس سے پہلے بھی اس موضوع پر کچھ گذارشات پیش کر چکا ہوں۔۔۔جن کا خلاصہ کچھ ایسے ہے کہ۔۔۔
ٹریفک کے قوانین کو بچوں کے نصاب کاحصہ بنایا جائے
سڑک پر چلنا۔۔۔ایک ڈینش سکول کے بچے |
سکولوں پر یہ لازم ہو کہ وہ بچوں کو سڑک پر چلنے کے آداب اور قوانیں سے عملی طور پر روشناس کرائیں۔
ڈرائیونگ لائیسنس کو ایک مقدس ڈاکومنٹ کا درجہ دیا دیا جو قومی شناختی کارڈ کے برابر تصور ہو لیکن اس کا حصول مشکل بنایا جائے اور اس پر کسی قسم کا کمپرومائز نہ کیا جائے۔
ڈرائیونگ سکولز کو ترویج دی جائے اور ہر ڈرائیور کے لئے لازم ہو کہ وہ کسی ماہر ڈائیور کی زیر نگرانی چند گھنٹے گاڑی ضرور چلائے۔
سڑک پر عملی امتحان کے بغیر کسی کو ڈرائیونگ لائیسنس نہ دیا جائے۔۔۔
اور بھی درجنوں باتیں ہیں جو اس میں شامل کی جاسکتی ہیں، ۔۔میں نے چند دوستوں کی مدد سے یہ طے کیا ہے کہ ہم پاکستان میں محفوظ ڈرائیونگ کی آگہی کے لئے کوشش کریں گے۔۔۔اس کے لئے ہم نے ایک فیس بک پیج بھی بنایا ہے آپ اس پیج کا لائک کرکے ہمارے اس مشن میں شامل ہو سکتے ہیں۔https://www.facebook.com/pages/Safe-Driving-in-Pakistan/490126737715869۔ ہم ڈرائیونگ کی بہتر آگہی کے لئے ایک کتاب پر بھی کام کا آغاز کریں گے۔اور بچوں کے نصاب میں شامل کرنے کے لئے کچھ ابواب بھی تحریر کریں گے۔۔۔۔اور حکومتی سطح پر لوگوں سے رابطہ کرکے ان ابواب کو نصاب کا حصہ بنوانے کی کوشش بھی کریں گے۔۔۔
اگر آپ پاکستان میں ڈرائیونگ کرتے ہیں، یا کرنے جا رہے ہیں۔۔آپ سے درخواست ہے کہ ایک دفعہ ضرور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ گاڑی سڑک پر چلانے کے قوانین کیا ہیں۔۔۔