لیکن اب تک کم ہی رمضان ایسے گذرے ہیں جس میں کسی روزے کا ناغہ ہم نے کیا ہوا۔۔۔۔والدین نے اتنی محبت سے یہ عادت ڈالی ہے کہ چھوڑنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔۔۔اور ویسے بھی روزہ کی جزا کا حساب مالک نے خود اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔۔۔اس لئے باقی کی کمیاں کوتاہیاں اپنی جگہ ۔۔جہاں سے اضافی نمبر ملنے کا موقع ہو اس کو ہاتھ سے کیوں جانے دیا جائے۔۔۔اور ممتحن بھی وہ ہو جو ستر ماوں کی محبت سے زیادہ محبت کرنے والا۔۔۔۔تو خوش گمانی تو نہ چاہتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں سے آ ہی جاتی ہے۔
پردیس کا روزہ بھی ایک عجیب تجربہ ہے۔۔بس گھڑی کا ٹائم دیکھو اور سحری کا انتظام کر لو، اور گھڑی دیکھ کر کھجور منہ میں ڈال لو۔۔۔نہ وہ روزہ دار مولویوں کے پھرتیلے پیغامات کہ روزہ دارو، اللہ تے نبی دے پیارو۔۔۔روزہ رکھ لو یا کھول لو۔۔۔۔نہ وہ اذان در اذان ایمان کو گرماتی اللہ و اکبر کی صدائیں۔۔۔نہ وہ شام ڈھلے بستی سے اٹھنے والے کھانوں کی مہک۔۔۔۔اور شہر رمضان کا پرنور ماحول۔۔۔چھوٹی چھوٹی بڑھی ہوئی شیویں، نماز والی ٹوپیوں سے ڈھکے ہو ے سر۔۔۔۔اور بقول شخصے ۔۔۔۔یہ دو دن میں کیا ماجرہ ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔۔۔۔
گھڑی سے دیکھ کر رکھے گئے روزوں کے اپنے ہی مسائل ہیں، سچ کہیے تو مجھے تو تسلی ہی نہیں ہوتی کہ روزہ ابھی کھلا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔اور ظالم سکینڈے نیویا جہاں سورج غروب ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔۔اور اگر سائیندانوں کے حساب سے ہو بھی جائے تو دن کی روشنی جیسی روشنی رات کو اگلی صبح بنانے تک ساتھ چلتی ہے۔۔۔گرمیوں میں تو کھڑکیوں پر سیاہ پردے لگا کر ہی رات کا مزہ لیا جاتا ہے ۔
اگلہ مسئلہ مختلف کیلنڈرز کا ہے۔۔۔جن میں ٹائم کا اختلاف چالیس منٹ تک پھیلا ہو سکتا ہے۔۔خصوصا سحری کے وقت۔۔۔اب کس فقہ اور فرقے کا دامن تھاما جائے؟
پہلے روزے کی پہلی سہری کام کے دوران تھی ۔۔۔ایک دوست سے ٹائم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے سوا تین بجے کا بتایا۔۔۔ایک ترکی ریستوران پر پہنچا تو وہ دو بج کر بتیس منٹ کو انتہائے سحری گردان رہے تھے اور وہاں دو چار ترکی مسلمان سحری فرما بھی رہے تھے۔۔۔انھوں نے کہا بس آٹھ منٹ باقی ہیں۔۔۔جلدی جلدی ایک شوارما تھاما۔۔۔پانی وانی پیا اور روزے کی نیت کر لی۔۔۔باہر نکلا تو دوسرے کیلنڈر کے حساب سے ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔۔۔اگلی صبح دیر تک سوئے دوپہر کے ایک دو بج رہے تھے اور ابھی روزہ کھلنے کو آٹھ ، نو گھنٹے باقی تھے۔۔۔۔۔۔دس بجے کے قریب روزہ کھلا۔۔۔اور نماز وغیرہ پڑھ کرتھوڑے سدھے پدرھے ہی ہوئے ہوں گے تو اگلی سحری کے اختتام کا وقت آیا چا ہتا تھا ۔۔۔۔
ہماری ماں جی نماز تراویح کو روزے کے پر کہا کرتی ہیں۔۔۔کہتی ہیں روزہ تو اڑتا ہی نہیں۔۔مالک کے در تک پہنچتا ہی نہیں۔۔۔لیکن قیام اللیل کی تشریح جو غامدی صاحب فرماتے ہیں وہ ہمیں اپنی سستی کے کافی قریب تر لگتی ہے۔ اور ویسے بھی نو بج کر اٹھاون منٹ افطار کا ٹایم ہو ، گیارہ بجے عشا اور تین بجے تک اختتام سحری تو ساری رات ویسے ہی جاگتے گذر جاتی ہے۔ ایسی مختصر راتوں میں لیلتہ القدر ڈھونڈنا قدرے آ سان ہو گا؟؟؟یعنی دو گھنٹے جاگیں تو پوری رات ہی گذر جائے۔۔۔
میری مذہب کے حوالے سے کم علمی اور بے عملی اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں عبادات میں اخلاص کی روح روزے کے مشقت سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس محنت کی بھٹی میں جل کر دل کو دنیا کے میل سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ بھوک کو برداشت کرنے کا درس مساوات کی ایسی خوبصورت کڑی ہے جو مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے۔ ۔۔سچ پوچھئے تو گناہگاروں کے لئے ایک نئے جنم کی مانند ۔۔۔نئی زندگی کی بشارت ماہ صیام پھر آپ کے دروازوں پر دستک کناں ہے۔۔۔۔دلوں سے نفرتوں، رنجشوں کو بھلا کر ۔۔۔۔پروردگار کو منانے کا ایک نیا موقعہ ہے۔۔۔خدا تعالی ہمیں موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی توفیق اور ہمت مراحمت فرمائیں۔۔۔آمین۔