میں یورپ میں بسنے والا ایک عام سا پردیسی ہوں جو چند سال پہلے ہی وطن بدر ہوا ہے، جس کے سبھی اپنے ابھی پاکستان میں بستے ہیں ۔۔۔اورآج اس کا یوم عید ہے۔ پردیس میں گذرنے والا چھٹا یوم عید۔۔۔
ایسی عیدیں جن کی چاند راتیں کام سے واپسی پر راستے میں گذریں۔۔۔۔کام سے فرصت ہوئی تو نماز عید کے کسی قریبی اجتماع میں چلے گئے اور شام کو پھر کام پر۔۔۔۔کام اور گھر کے راستوں پر چلتے چلتے
اپنے پیاروں سے فون پر عید کی مبارکباد دے اور وصول کر لی ۔۔۔اگر موقع ملا تو کسی دوست کی طرف چلے گئے۔۔۔اس سے کسی من پسند کھانے کی فرمائش کر لی یا اس کی پسند کا کچھ بنا لیا۔۔۔۔اور بس۔۔۔
بس ایسی روکھی، بے رنگ اور بے جان ہوتی ہے پردیس کی عید۔۔۔۔۔۔
نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوئے، نہ گلی کے بچوں نے شور مچایا، نہ کسی نے گلی کے موڑ پر ٹھیلا جمایا، نہ کسی اجنبی نے گلے لگایا، نہ آنگنوں میں جھنڈیاں سجیں۔۔۔۔بس ایک عام سا دن تھا جو آیا اور مزید اداس کر کے چلا گیا۔
مجھے خبر نہیں کہ عید کا اداسی سے کیا چکر ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ
ہوا ہی ایسی چلی ہے کہ جی بہال نہیں
وگرنہ ہم تو بہت کم اداس ہوتے ہیں
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں دیس میں تھا تب بھی عیدیں اداس ہونے لگ گئی تھیں۔ جب سے بیس برس سے کچھ اوپر کے ہوئے عیدیں کچھ خاص خوشی نہیں دیتی تھیں۔ بس یہ کہ اٹھے ، نماز عید پڑھی، محلے کے لوگوں
سے ملے ، عید کے جھپے بانٹے اور وصول کئے اور گھر کو آ گئے۔ ٹی وی دیکھا، کچھ رنگ برنگا کھانا کھایا، کوئی ملنے چلا آیا ، کسی کو ملنے چلے گئے۔
اور بس۔۔ لیکن پچھلی بہت سی عیدوں میں سے عید کا دن ڈھونڈنے بیٹھا ہوں تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کس برس عید منائی تھی۔
شاید وہ دن جنہیں عید کے دن کہتے تھے میرے بچپن کے دن تھے، جب چاند رات کو ہم بچے چارہ کاٹنے والے چبوترے کے پاس جمع ہو جاتے اور اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی کوشش کرتے
ان دنوں ٹی وی تو کیا ہمارے گاوں میں بجلی کے کھمبے بھی نہ لگے تھے۔۔۔۔اور سچ پوچھئے تو لوگ بجلی کے لئے پریشان بھی نہ ہوا کرتے تھے، تب ہم نے عید کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بہت باریک سا ، نازک سا۔۔۔۔بالکل
کسی شاعر کے محبوب سا۔۔۔آج کے دور میں جب سے چاند دیکھنے کی ذمہ داری پوپلزئی اور رویت ہلال کمیٹیوں نے لے لی ہے۔۔۔لوگ چاند اب بس کھڑکیوں میں ہی تلاش کرتے ہیں
کھڑکی کھلے کوئی چہرہ دکھائی دے
اے چاند تو نہیں تو کوئی تجھی سا دکھائی دے
اگر آپ کی زندگی میں بھی عید کا چاند آپ کی آنکھوں نے دیکھ رکھا ہے تو آپ عید کی خوشی کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ بس یہ کہ کسی بچے بوڑھے کو چاند کی ایک ہلکی سی لکیر دکھائی دیتی
اور وہ دور آسماں میں کسی طرف اشارہ کرتا۔۔۔لوگ اس کی نگاہوں اور انگلیوں کے تعاقب میں آسمان پر نظریں دوڑاتے۔۔۔۔اور چاند نظر آجاتا تو سبھی کو لگتا کہ آج تو چاند صرف اسی کے لئے نکلا ہے۔
مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ بچپن کی ہر عید نئے کپڑوں کے ساتھ ہی گذری ہو۔۔۔یہ بھی یاد نہیں کہ کسی ایک عید پر ہم نے ڈھیروں عیدی اکھٹی کی ہو لیکن اتنا یاد ہے کہ ان عیدوں میں ایک خوشی تھی
ایک انجانی خوشی۔۔۔جو میرے بیان سے باہر ہے۔۔۔۔وہ کس چیز کی خوشی تھی اب تک اس کی وجہ ڈھونڈھ نہیں پایا۔۔۔۔۔
گاوں کا واحد حلوائی جلیباں تو سارا سال نکالتا تھا، لیکن عید کے روز کچھ زیادہ، میناری والی دکانیں بھی سارا سال کھلتی تھیں لیکن عید پر کچھ کھلونے زیادہ ہوتے تھے
کچھ موسمی سے دکاندار بھی عید بنانے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے سے سجا لیتے تھے۔۔۔۔لیکن اس دور میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور تھا جس جذبے کو خوشی کہا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے خوشی شاید
بے فکری کا نام ہے۔۔۔جو صرف بچپن میں تھی اس لئے جوں جوں فکر مندی کی دہلیز پار کی خوشی کم ، مزید کم ہوتی چلی گئی۔
اور آج جب عید منانے بیٹھا ہوں تو دل پر ایک بوجھ سا ہے، اپنے دیس سے جدائی کا دکھ، اپنے دوستوں سے دوری کا دکھ، زندگی میں بہت آگے نہ بڑھنے کی کسک، اپنی زندگی کی بے مائیگی کا دکھ،
اپنے باپ کے بچھڑ جانے کا زندہ ہو تا احساس، پاکستان کے حالات ابتر ہوتے جانے کا دکھ۔۔۔۔۔سانحہ پشاور کے ننھے شہیدوں کے اجڑے گھرانوں کا دکھ، نئے کپڑے نہ ملنے پر زندگی ہار دینے والوں کا دکھ،
بس جیسے دکھ ہی ہیں میرے آس پاس۔۔۔۔
سچ پوچھئے تو میرا دل چاہتا ہے عید منانے کو۔۔۔۔۔ایسا دن جو فکروں سے آزاد ہو، ایسا دن جس میں میں آپ کے زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کے پاس ہوں،
اور اگر آپ کہیں اپنے اپنوں کے درمیان موجود ہیں، دیس کی گلیوں میں بستے ہیں، دوستوں کی محفلیں میسر ہیں، والدین کا سایہ سر پر سلامت ہے، بہن بھائی ابھی زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں
تو عید منانے کے لئے اس سے اچھا دن نہیں آنے والا۔۔۔۔۔۔اگر کوئی روٹھا ہے تو اس کو منا لیجئے، کوئی دور ہے تو اس کو پاس بلا لیجئے،
زندگی خرابی در خرابی کے راستے پر چل رہی ہے، ان نعمتوں کی قدر کیجئے جو آپ کے پاس ہیں، ورنہ عیدیں اداس در اداس ہوتی جانے والی ہیں۔۔۔۔۔