Home Uncategorized چھ ماہ کی رات۔۔۔۔۔۔۔۔

چھ ماہ کی رات۔۔۔۔۔۔۔۔

0
چھ ماہ کی رات۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم اور مزاج کا تعلق کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔۔۔کسی نے کہا تھا کہ موسم تیرے آون نال۔۔۔موسم تیرے جاون نال۔۔۔۔۔موسموں کے رنگ کسی یار دیرینہ کے مل جانے سے نکھر بھی سکتے ہیں، اور بچھڑ جانے سے دھیمے بھی پڑ سکتے ہیں۔۔۔ویسے سردیوں کی شامیں اداس پھرنے کے لئے کافی موزوں تصور کی جاتی ہیں۔ میں موسم کے متعلق ان باتوں کو محض باتیں ہی سمجھتا تھا۔۔۔لیکن کافی عرصہ پہلے میری سوچ میں ایک دروزہ کھلا۔۔۔یہ کچھ پانچ برس پہلے کی بات ہے۔۔غالبا دسمبر ہی کا مہینہ ہو گا۔۔۔نیویارک سٹیٹ کی مشہور یونیورسٹی کے جس ہاسٹل میں میرا قیام تھا، اس کی انتظامیہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں آنے والے سرد موسم کی سختیوں کا تذکرہ تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ آپ تنہائی محسوس کرنے کے جھٹکوں سے بھی گذریں گے۔۔۔ہم جن ملکوں میں پلے بڑھے ہیں وہاں تو ہر بیماری اپنی آخری سٹیج پر ہی پتہ دیتی ہے ۔۔جب ڈاکٹر بھی کہہ دیتے ہیں کہ بس اللہ تعالی سے دعا ہی کریں۔۔وہاں تنہائی کے جھٹکوں اور جھکڑوں کی کون خبر رکھتا ہے۔۔۔اور ویسے بھی ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں ہمارے اردگرد کوئی نہ کوئی اپنا موجود ہوتا ہے تو ایسے جھٹکوں کا پتہ بھی نہیں چلتا۔۔۔۔خیر سوسائیٹی کی انتظامیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا۔۔آپ اس آنے والے موسم کو خوشگوار بنانے کے دیگر لوگوں کے لئے ایک پیغام تحریر کریں۔۔اور پیغام آئینے کے چوکور ٹکٹروں پر لکھا جائے گا۔۔۔اور ان ٹکڑوں کی مدد سے ایک محراب آراستہ کیا جائے گا اور اس محراب کو سوسائٹی کے عین وسط میں موجود پلاٹ میں نصب کیا جائے گا۔۔۔تاکہ ہمسائے آپ کے لکھے گئے پیغامات کو آتے جاتے پڑھتے رہیں اور آپ کو اپنے اردگرد محسوس کریں۔۔۔میں نے بھی اپنے حصے کا ایک پیغام لکھا اور
بعد میں انتظامیہ کی جانب سے سبھی وصول شدہ پیغامات کو اس محراب کا حصہ بنایا گیا۔۔۔

پانچ سال پہلے تنہائی اور سرد موسم کی سرسراہٹ کو ہم چٹکیوں میں اڑاتے تھے۔۔۔لیکن سکینڈے نیویا کی کالی راتیں ابھی دیکھنا باقی تھیں۔۔۔جہاں کے بارے مشہور ہے کہ چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات۔۔۔۔دوست اب بھی یہ سوال پوچھتے ہیں کیا واقعتا چھ مہینے کی رات ہوا کرتی ہے؟ اور چھ مہینے کا دن کیسا ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن جسے چھ مہینے کی رات کہا جاتا ہے ان چھ مہینوں میں سورج نکلتا ہے لیکن اس کا دورانیہ چھ سات گھنٹوں کا ہوتا ہے، اور بعض مقامات پر اس بھی کم ، اور بعض مقامات رات کے بارہ بجے بھے سورج کی روشنی کو صبح کے اجالے کی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔اس تمہید کی روشنی میں ہم اجکل کے موسم کو چھ ماہ کی رات بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔سورج کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب طلوع ہوتا ہے اور شام تین بجے کے بعد اندھیرا چھانے لگتا ہے۔۔۔اور پھر یہ اندھیرا گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔اس کالی رات میں تنہائی کی کسک کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔ویسے بھی ان ملکوں کی آبادی بھی کافی کم ہے ، اس لئے سرشام سڑکیں ویران
ہونا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔
ان سرد، اداس اور سنسان راتوں میں خامشی کی صداوں کے سوا سجھائی کچھ نہیں دیتا، اور ایسے میں اگر فراز کے شعر کی سی صورت حال ہو جائے کہ
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
 تو فیض صاحب کی تنہائی کی چاپ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔
پھر کوئی آیا دلِ زار
نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا
اور دل کو قرار اسی مصرعے سے ملتا ہے
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔۔۔
تنہائی کے دامن سے جن سوچوں کے سوتے پھوٹتے ہیں ان میں خودی کی پہچان، کچھ کر گذرنے کے خواب و خیال، کچھ بالذت گناہوں کی ترغیبات، اپنوں کی بے وفائیاں، غیروں کی جفائیں، سب اپنی اپنی تصویر لئے آنے والے دنوں پر اپنا عکس منعکس کرتے ہیں۔۔۔انسان پر کچھ لمحے ایسے بھی گذرتے ہیں ، جب انسان کچھ تصاویر کے نقشے درست بنا نہیں پاتا، کچھ سوچوں کی حد متعین نہیں کرپاتا۔۔۔۔کبھی کبھی اس کو ہر راستہ بند دکھائی دیتا ہے، زندگی کا ٹھہراو اور شدت سے آگے بڑھنے کی آرزو جب ساتھ ساتھ نہیں چل پاتے تو کوشش کے کسی خاص لمحے میں انسان ہمت ہار دیتا ہے، مستقبل کے لئے مستقل آگے بڑھنے کی خواہش دم توڑنے لگتی ہے، انسان راستہ کھونے لگتا ہے، ایسے میں کچھ کوتاہ ہمت پوشیدہ قرار میں اجل ہے کے پیغام کو ڈی کوڈ نہیں کر پاتے ، انہیں لگتا ہے کہ اجل میں قرار ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کہ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں۔۔
موسم اندھیری راتیں لاتے رہتے ہیں، کہیں یہ راتیں چھوٹی ہیں اور کہیں چھ ماہ کی۔۔۔۔سب نے ان کو گذارنا ہے۔۔۔بس جتنی رات لمبی ہے اس کے لئے اہتمام بھی اتنا ہی درکار ہے، خیال یار کی چادر، کچھ یادگار شہر ستمگر، نغمہ ہائے ہو، کچھ ان بنے خواب، کچھ ان کہی باتیں۔۔۔۔اور بہت کچھ درکار ہے۔۔۔۔لیکن ہمت سے امید کا دامن تھامے رکھیے دن بھی اتنا ہی لمبا آئے گا، چھ ماہ کا دن۔۔۔۔۔بس ان اندھیروں سے ڈرنے کا نہیں۔۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.