بعد میں انتظامیہ کی جانب سے سبھی وصول شدہ پیغامات کو اس محراب کا حصہ بنایا گیا۔۔۔
پانچ سال پہلے تنہائی اور سرد موسم کی سرسراہٹ کو ہم چٹکیوں میں اڑاتے تھے۔۔۔لیکن سکینڈے نیویا کی کالی راتیں ابھی دیکھنا باقی تھیں۔۔۔جہاں کے بارے مشہور ہے کہ چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات۔۔۔۔دوست اب بھی یہ سوال پوچھتے ہیں کیا واقعتا چھ مہینے کی رات ہوا کرتی ہے؟ اور چھ مہینے کا دن کیسا ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن جسے چھ مہینے کی رات کہا جاتا ہے ان چھ مہینوں میں سورج نکلتا ہے لیکن اس کا دورانیہ چھ سات گھنٹوں کا ہوتا ہے، اور بعض مقامات پر اس بھی کم ، اور بعض مقامات رات کے بارہ بجے بھے سورج کی روشنی کو صبح کے اجالے کی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔اس تمہید کی روشنی میں ہم اجکل کے موسم کو چھ ماہ کی رات بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔سورج کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب طلوع ہوتا ہے اور شام تین بجے کے بعد اندھیرا چھانے لگتا ہے۔۔۔اور پھر یہ اندھیرا گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔اس کالی رات میں تنہائی کی کسک کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔ویسے بھی ان ملکوں کی آبادی بھی کافی کم ہے ، اس لئے سرشام سڑکیں ویران
ہونا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔
ان سرد، اداس اور سنسان راتوں میں خامشی کی صداوں کے سوا سجھائی کچھ نہیں دیتا، اور ایسے میں اگر فراز کے شعر کی سی صورت حال ہو جائے کہ
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
تو فیض صاحب کی تنہائی کی چاپ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔
پھر کوئی آیا دلِ زار
نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا
اور دل کو قرار اسی مصرعے سے ملتا ہے
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔۔۔
تنہائی کے دامن سے جن سوچوں کے سوتے پھوٹتے ہیں ان میں خودی کی پہچان، کچھ کر گذرنے کے خواب و خیال، کچھ بالذت گناہوں کی ترغیبات، اپنوں کی بے وفائیاں، غیروں کی جفائیں، سب اپنی اپنی تصویر لئے آنے والے دنوں پر اپنا عکس منعکس کرتے ہیں۔۔۔انسان پر کچھ لمحے ایسے بھی گذرتے ہیں ، جب انسان کچھ تصاویر کے نقشے درست بنا نہیں پاتا، کچھ سوچوں کی حد متعین نہیں کرپاتا۔۔۔۔کبھی کبھی اس کو ہر راستہ بند دکھائی دیتا ہے، زندگی کا ٹھہراو اور شدت سے آگے بڑھنے کی آرزو جب ساتھ ساتھ نہیں چل پاتے تو کوشش کے کسی خاص لمحے میں انسان ہمت ہار دیتا ہے، مستقبل کے لئے مستقل آگے بڑھنے کی خواہش دم توڑنے لگتی ہے، انسان راستہ کھونے لگتا ہے، ایسے میں کچھ کوتاہ ہمت پوشیدہ قرار میں اجل ہے کے پیغام کو ڈی کوڈ نہیں کر پاتے ، انہیں لگتا ہے کہ اجل میں قرار ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کہ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں۔۔
موسم اندھیری راتیں لاتے رہتے ہیں، کہیں یہ راتیں چھوٹی ہیں اور کہیں چھ ماہ کی۔۔۔۔سب نے ان کو گذارنا ہے۔۔۔بس جتنی رات لمبی ہے اس کے لئے اہتمام بھی اتنا ہی درکار ہے، خیال یار کی چادر، کچھ یادگار شہر ستمگر، نغمہ ہائے ہو، کچھ ان بنے خواب، کچھ ان کہی باتیں۔۔۔۔اور بہت کچھ درکار ہے۔۔۔۔لیکن ہمت سے امید کا دامن تھامے رکھیے دن بھی اتنا ہی لمبا آئے گا، چھ ماہ کا دن۔۔۔۔۔بس ان اندھیروں سے ڈرنے کا نہیں۔۔۔۔