ابھی سیکنڈے نیویا اور یورپ میں موجود دودھ اور متعلقہ مصنوعات کی کمپنی آرلا کے متلق پڑھ رہا تھا، جس کے مالک 12700 زمیندار ہیں، ان زمینداروں کا تعلق ڈنمارک، سویڈن، یوکے، جرمنی، بیلجئیم، لگزمبرگ اور نیدرلینڈ سے ہے۔ اس طرح کی فارمنگ کمپنیاں جس میں لوگ مل کر کام کرتے ہیں کوآپریٹو فارمنگ کہلاتی ہے۔ ایک ہی صنف یا سمت میں کام کرنے والے متحد ہو کر اپنے مسائل کا حل نکالتے ہیں اور زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا میں ہی کوآپ کے نام گروسری سٹورز کا ایک سلسلہ بھی ہے، جو کہ کوآپریٹو سسٹم کے تحت کام کرتا ہے۔
پاکستان میں بھی کوآپریٹو سوسائٹیز کا نام کچھ نیا نہیں، پرانے شہروں میں کوآپریٹو سکول اور اداروں کا ایک دھندلا سا خاکہ ملتا ہے اور ان میں سے کچھ ادارے ایسے ہیں جن کی افتتاحی تاریخ انگریزوں کے دور حکومت کی ہے۔ لیکن پاکستان میں کوآپریٹو ادارے عملی طور پر بہت کار گر ثابت نہیں ہوئے۔ ھلہ دودھ کو آپریٹو کی طرز پر پاکستان میں کام کر رہا تھا لیکن جب پنجاب کے بڑے کاروباری دودھ کے کاروبار میں اترے تو کوآپریٹو اداروں کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالی جانے لگیں۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ پاکستانی زراعت کی بہتری کے لئے ہمارے کسانوں کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ ہمارے زمیندار کے بڑے مسائل کچھ یوں ہیں۔
کسان ان پڑھ ہے۔
زمین کا رقبہ فی کس کے حساب سے کم ہے
معاشرتی طور پر طبقات میں تقسیم ہے۔
سیاسی طور پر کمزور ہے
پاکستان میں بھی کوآپریٹو سوسائٹیز کا نام کچھ نیا نہیں، پرانے شہروں میں کوآپریٹو سکول اور اداروں کا ایک دھندلا سا خاکہ ملتا ہے اور ان میں سے کچھ ادارے ایسے ہیں جن کی افتتاحی تاریخ انگریزوں کے دور حکومت کی ہے۔ لیکن پاکستان میں کوآپریٹو ادارے عملی طور پر بہت کار گر ثابت نہیں ہوئے۔ ھلہ دودھ کو آپریٹو کی طرز پر پاکستان میں کام کر رہا تھا لیکن جب پنجاب کے بڑے کاروباری دودھ کے کاروبار میں اترے تو کوآپریٹو اداروں کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالی جانے لگیں۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ پاکستانی زراعت کی بہتری کے لئے ہمارے کسانوں کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ ہمارے زمیندار کے بڑے مسائل کچھ یوں ہیں۔
کسان ان پڑھ ہے۔
زمین کا رقبہ فی کس کے حساب سے کم ہے
معاشرتی طور پر طبقات میں تقسیم ہے۔
سیاسی طور پر کمزور ہے
ایسے میں لوگوں کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے، کیسے ان کو سمجھایا جا سکتا ہے، دنیا تجارت کی بڑی ویب علی بابا کے مالک کا کہنا ہے کہ جب آپ غریب آدمی کے حالات بدلنے کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ اس میں کسی کا مطلب پوشیدہ ہے ، وہ پڑھے لکھوں سے زیادہ سوچتا ہے لیکن اندھوں کی طرح عمل کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی تصویر بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔
اگر کسی نہ کسی طرح ہمارے کسان متحد ہو جائیں، کاشت کاری کو ایک مشترکہ کام کے طور پر کرنے کی کوشش کریں، اس میں استعمال ہونے والی مصنوعات کی خریداری مل کر کریں، اور جب فصل تیار ہو تو اس کو بیچنے کے حوالے سے باہمی کوشش کریں تو ہمارے کسانوں کی حالت زار کچھ بدل سکتی ہے۔
لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، برادریوں میں بٹے ہوئے زمینداروں کو ایک دوسرے پر اعتبار کیونکر آئے گا؟؟؟