سامان جمع کروانے کی کائن میں پھر آئے ، سامان جمع ہوا اور اس کام تک ڈیڑھ گھنٹہ لگ چکا تھا، وہاں سے پاسپورٹ کنرول تک آئیے اور وہاں بھی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی، اسی کاونٹر کے سامنے شکایات اور تجاویز کا بکس لگا ہوا تھا اور ساتھ ہی کاونٹر پر ایک صاحب کھڑے تھے ان سے پوچھا شکایات لکھنے کے لئے کاغذ کہاں ہے، پوچھنے لگے کس کی شکایت کریں گے، میں نے بتایا فوٹو کاپی کے نظام کی، انہوں نے کاغذ دیا جو میں جلدی جلدی پر کر کے واپس کیا، اس کاغذ پر بہت زیادہ ذاتی معلومات پوچھی گئی تھیں، جیسے پاسپورٹ کا نمبر، گھر کا مکمل پتہ وغیرہ ۔۔۔۔۔تاکہ لوگ اس فارم کو پر کر تے ہوئے یہ سوچ کر کریں کہ کوئی آپ کے گھر تک بھی پہنچ سکتا ہے، جبکہ عموما شکایات میں شکایت کنندہ کی شناخت کو چھپا کر اس کی شکایت پر توجہ دی جاتی ہے۔ پاسپورٹ کنٹرول پر ہماری تازہ تصویر لی گئی ، اس کے بعد پاسپورٹ کنٹرول کے نام سے ہی ایک اور کاونٹر ہے جس پر ایف ائی اے کے اہلکار آپ کی تصویر پاسپورٹ سے ملا کر دیکھتے ہیں، اس کے بعد پھر ایک سیکنر آتا ہے اور آپ لاونچ میں آتے ہیں جہاں مذکورہ تماشہ چل رہا تھا جس کا بیاں آغاز میں کیا گیا ہے۔اس ساری مشق میں دوگھنٹے سے زائد کا وقت لگا جو کہ دنیا کے کسی بھی ائیرپورٹ کے مقابلے بہت زیادہ دکھائی دیتا ہت۔
دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر تین سے چار کاونئٹر ان تمام کاموں کو نمٹاتے ہیں جو پاکستان میں آٹھ سے دس کاونٹر پر کی جاتی ہے، جیسے اگر کوپن ہیگن سے سوار ہوں تو سیدھا سامان جمع کروانے کے کاونٹر پر جاوں گا، بکنگ کا سامان جمع کر لیا جائے اور میرے ہاتھ میں صرف ہینڈ کیری سامان رہ جایے گا ، جس کو لے کر میں سیکورٹی گیٹ کی طرف چلا جاوں گا ، وہاں میرا سامان اچھی طرح چیک کیا جائے گا اور میری تلاشی لی جائے گی۔ اور بس اس کے ملک سے باہر جانے کی سٹمپ لگانے کا کاونٹر ہے جس پر شادو و نادر ہی لائن لگتی ہے اس کے بعد میں مسافر لاونچ میں چلا جاوں گا۔ سیکورٹی گیٹ پر ایک مسافر پر زیادہ سے زیادہ کتنا ٹائم لگتا ہے، وہ داخلے والے لاونچ کی سکرین پر لکھا آ رہا ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ سیکورٹی چیکنگ ٹائم میں نے نوٹ کیا ہے وہ چودہ منٹ کا ہے۔ ورنہ پانچ سے سات منٹ میں آپ سیکورٹی سے گذر جاتے ہیں اور سامان جمع کروانے والی جگہوں پر عمومی طور پر لمبی لائن نہیں ہوتی سوائے پاکستان کو جانے والی فلائٹوں کے کیونکہ ہم سب سے زیادہ سامان ساتھ میں لاتے ہیں،