بہت سال پہلے قاضی حسین احمد سے ملنے کا موقع ملا تھا، وہ کسان سپلائیز سروسز کے دفتر تشریف لائے تھے، مجھے ان کو سٹیج پر بلانے، کچھ بات کرنے اور سننے کا موقع ملا ، ایسے لوگوں سے پہلی ملاقات بھی پہلی نہیں ہوتی، جن کے بارے آپ روز ہی سنتے ہوں ایک دن سامنے چلے آئیں تو بس پرانی ملاقاتوں کا تسلسل لگتا ہے، بس ایسا ہی لگا جیسے اس شخص کو ہم برسوں سے جانتے ہوں، بڑے شفیق اور مہربان شخص لگے، چہرے پر ایک خاص قسم کی مسکراہٹ جیسی پر خلوص لوگوں کے چہروں پر ہوا کرتی ہے،
کل زندگی نے موقع دیا تو نئے امیر جماعت اسلامی سراج االحق صاحب کو بھی قریب سے دیکھنے، سننے ، اور ہاتھ ملانے کا موقع ملا، انہوں نے جماعت کے حوالے سے بہت سے خوبصورت باتیں سامعین کے سامنے رکھیں، گرین اور کلین پاکستان کا تصور، اسلامی تصور سے مزین چمکدار پاکستان، ان کی باتوں میں مجھے خلوص نظر آیا، ان کی شخصیت میں عاجزی نظر آئی، ان کے لہجے کی صداقت محسوس کی جا سکتی تھی، وہ ایک گھنٹے کے قریب اپنے زندگی کے واقعات، جماعت سے وابستگی، اور پاکستان کے حوالے سے اپنے خوابوں کا تذکرہ کرتے رہے، ایک واقعہ انہوں نے اپنے اور قاضی صاحب کے چائنہ ٹور کا سنایا، کہنے لگے کہ ہم چاینہ کی ایک بڑی پارٹی کے مرکزی دفتر میں بلائے گئے، وہاں پر قاضی صاحب نے بتایا کہ قرآن کریم میں معاشی نظام، معاشرتی نظام، تعلیمی نظام، کا پورا ڈھانچہ ملتا ہے، اس پر کسی نے سوال پوچھا کہ کیا پاکستان کا معاشرتی نظام قرآن کے مطابق ہے، یا معاشی نظام، یا تعلیمی نظام تو ہمارے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا، تو انہوں نے کہا جس پھل کو آپ خود نہیں کھاتے تو ہمیں کیوں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں، اس واقعہ سے ان کی مراد یہ کہنا تھا کہ ہمارا پہلا فوکس یہ ہے ہم پاکستان کو ایک مثالی معاشرہ بنائیں، جہاں ہم قرآنی نظام کو دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔
اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب وہ پہلی بار منسٹر بنے تو انہیں اپنی تقریب حلف وفا داری میں کسی کو ساتھ لانے کے لئے چار مہمان لانے کی اجازت دی گئی تو وہ جماعت کے دفتر میں موجود مالی، کچن والا، اور چوکیدار کو ساتھ لے گئے، گورنر ہاوس کے پروٹوکول آفیسر کو یہ دھوکا لگا کہ یہ شخص غلطی سے یہاں چلا آیا ہے۔
محترم سراج الحق صاحب کی سادگی، عاجزی کے درجنوں لوگ گواہ ہیں، وہ حقیقت میں جماعت اسلامی کا سچا چہرہ ہیں، لیکن کیا ہماری عوام سچ میں نا بیناہے جن کو جماعت اسلامی کی خوبیاں نظر نہیں آتی، یہ حقیقت ہے امیر جماعت اسلامی کی شخصیت متاثر کن ہے، لیکن شہباز شریف کی طاقت، عمران خان کی مقبولیت، پیپلز پارٹی کے روایتی ووٹ بنک کے سامنے جماعت اسلامی کبھی کامیاب ہو پائے گی؟
بظاہر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ اہل جماعت سے اچھے طریقے سے ملتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے، یہ ووٹ اسی کو دینا پسند کرتے ہیں جو موجودہ نظام سے ان سے بہتر بسر کر رہا ہوتا ہے۔
یہ المیہ ہے لیکن سچ یہی ہے کہ ہماری تمام تر بدحالی کی وجہ ہمارا غلط سیاسی انتخاب ہی ہے ۔ جب ہم درست لوگوں کو درست مقام دیں گے تو ہی خود بھی درست مقام تک پہنچ سکیں گے۔