Home سماجی بلیک فرائیڈے اب بنے گا بگ فرائیڈے

بلیک فرائیڈے اب بنے گا بگ فرائیڈے

2
بلیک فرائیڈے اب بنے گا بگ فرائیڈے

جب بھی کوئی عالمی تہوار ہمارے ہاں جگہ پانے لگتا ہے ہمارے ہاں اس کی مخالفت کی تندو تیز ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں، اکثریت ایسے تہواروں کو مذہب متصادم قرار دے کر اپنی اسلامی شناخت کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دیتی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایسی کوئی بھی کوشش کارگر دکھائی نہیں دیتی، آج سے پچیس سال پہلے نظر دوڑائیے کہ کتنے لوگ سالگرہ مناتے تھے، ہم ایسے سفید پوش گھرانوں میں تو اسطرح کے کسی تہوار کا نام تک نہ تھا، یہاں تو بچوں کی درست تاریخ پیدائش بھی نہیں ملا کرتی تھی، اس دن کو منانے کی باتیں تو بہت دور کی ہیں، میرے دو بڑے بھائیوں کی تاریخ پیدائش سکول رجسٹر کے مطابق ایک ماہ کا فرق رکھتی تھی کیونکہ ماسٹر جی کو پتہ نہ تھا کہ دونوں بھائی ہیں۔ یعنی بچے کی پیدائش کا دن کوئی معنی نہ رکھتا تھا، مجھے جو اپنی ایک آدھ سالگرہ منانے کی یاد پڑتی ہے وہ سن دو ہزار کے بعد کی ہ، جب ہم یونیورسٹی کے طالب علم تھے، ہمارے ایک دوست شوکت علی اور میرا جنم دن ایک تھا تو اس کی سالگرہ منانے کے بہانے ہماری بھی ہو جاتی تھی، لیکن ایسی سالگرہ جس کا مقصد اپنی جیب سے دوستوں کو کیک کھلانا ہوتا، کوئی دوست تحقہ دینے کا تردد نہ کرتا اور نہ ہی کوئی امید لگائی جاتی، لیکن اب سوشل میڈیا کے توسط سالگرہ کا دن منانا اتنا عام ہو چکا ہے کہ دین سے دوستی رکھنے والے بے شمار دوست اپنی سالگرہ کی مبارکبادیں دیتے اور لیتے دکھائی دئیے ہیں، سالگرہ طرز کی تقریبات ہمارے بچپن سے لیکر بیس بائیس سالوں تک منظر سے یوں غائب تھی کہ دکھائی بھی نہ دیتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ اس تہوار نے ہر گھر میں جگہ بنا ہی لی، لوگ اس کے مذہبی اور غیر مذہبی کی بحث سے بھی آزاد ہو گئے۔

ہمارے یونیورسٹی کے آخری سالوں میں جب جنس مخالف کو ایمپریس کرنے کی ہوا درد سر رہا کرتی ہے، ویلنٹائن ڈے کا ظہور ہونے لگا،  کچھ من چلے پھول لے کر ہر جوڑے کے پاس پہنچ جاتے کہ اس کو خریدئیے، اور شام کو روپے اکٹھے کر کے یاروں کی پارٹی کیا کرتے، یعنی ان کا اس کو محبت کے نام پر منانے سے یا بابا ویلنٹائن کی تعلیمات سے تعلق ڈھونڈنا ایک سعی لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں ، کیونکہ عمر کے اس حصے میں مستی، مزاح، ہلا گلا انسان کی طبعیت کو قدرتی طور پر کشش کرتا ہے، کچھ دو چار لوگوں جن کی علیک سلیک ہو جاتی وہ ایک آدھ پھول بھیجنے کا بہانہ مل جانے پر خوش ہوتے، پھر چند ہی سالوں بعد ویلنٹائن ڈے نہیں یوم حیا طرز کے نعروں کی مزاحمت میں اس تہوار کو پھلنے پھولنے کا مزید موقع ملا، یعنی کچھ لوگ حق میں اور کچھ مخالف تو کسی دن کو یاد رکھنے کے لئے اس سے زیادہ اور کیا چاہیے، پچھلے سالوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ابھی پھول بیچنے والوں نے بکنگ نہیں پکڑی ہوتی لیکن مخالفین سوشل میڈیا پر بہت پہلے سے صف آرا نظر آنے لگے ، جس سے بہت سے بے خبر لوگوں کو بھی خبر ہو جاتی کہ اچھا ویلنٹائن دن آیا چاہتا ہے، کچھ ہمارے رنگ برنگے میڈیا کی مہربانی سے بھی اس دن کو پروان چڑھنے میں خوب مدد ملی، ہوٹلوں والوں نے کھانا، مشروب بیچنے کا نیا بہانا ڈھونڈا، ہر کاروباری کو کاروبار کا موقع نظر آیا اور آج اس تہوار کے منانے والے بھی کم نہیں۔

ہم دیسی آدمی بیوی سے زیادہ ماں سے محبت کے قائل ہیں، اس لئے ماں کا دن منانے پر ہمیں زیادہ منانا نہیں پڑا، لوگ اس دن پر اپنی والدہ کو تحفہ دینا آغاز ہوئے، کچھ مزاحمت پسندوں نے کہا کہ یہ یورپ کا تہوار ہے یہاں تو ہر دن ماں کا دن ہے، وغیرہ، لیکن آپ کو بڑے شہروں کی بیکریوں پر اس دن کی مناسبت سے کیک نظر آنے لگے، اب اگر ماں کا دن منایا گیا تو ابا جی کیوں پیچھے رہ جائیں، رفتہ رفتہ فادرز ڈے بھی پروان چڑھ رہا ہے، ہمارے معاشرے میں طاقت کا استعارہ  فادر، جس سے سب سے کم محبت جتائی جاتی ہے، اس کو جب اہمیت کا احساس ہوا تو اس بھی برا نہیں لگا۔

ابھی پچھلے دنوں ہیلوین منانے پر شور سنائی دیا گیا، پنجاب کے کچھ نجی سکولوں میں انتظامیہ کی طرف سے اس تہوار کی مناسبت سے بچوں کو لباس لانے کی ترغیب دی گئی، جس پر ہمارے بہت سے دانشور دوست سیخ پا تھے کہ ایسا اسلامی جمہیوریہ پاکستان میں کیونکر ہو سکتا ہے، ہم کیونکر بد روحوں کے تصور پر یقین رکھ سکتے ہیں وغیرہ۔ ابھی اس تہوار کو جگہ بنانے میں کچھ سال لگیں گے۔

آج سے پانچ سال پہلے بلیک فرائیڈے نامی تہوار یورپ کے لئے نیا تھا، یہ امریکی تہوار تھا ، ہر نومبر کی چوتھی جمعرات جسے تھینکس گونگ ڈے کہا جاتا ہے اس کے بعد آنے والے جمعے کے دن کو بلیک فرائیڈے کہا جاتا ہے، یہ اصل میں کرسمس کی خریدوفروخت کے آغاز کا دن بھی سمجھا جاتا ہے، اس دن بڑے بڑے سٹور اپنی مصنوعات پر خصوصی ڈسکاونٹ لگاتے ہیں، سن دو ہزار پندرہ میں ڈنمارک کی تاریخ میں ایک دن میں سب سے زیادہ خریداری کی ٹرانزیکشنز اس دن ہوئیں ، یعنی کچھ ہی سالوں میں نہ صرف اس تہوار نے اپنی جگہ بنا لی بلکہ اپنے آپ کو منوا بھی لیا۔ کچھ یورپی ملکوں میں باکسنگ ڈے کا تہوار اس تہوار سے ملتا جلتا ہے۔

اب بلیک فرائیڈے بھی کچھ سالوں سے ہمارے ہاں سنا جا رہا ہے، لیکن اس کی کب سنی جاتی ہے معلوم نہیں۔ میرے عزیزو، اتنی لمبی تمہید کا ایک ہی مقصد ہے کہ تہوار اور طاقتور کلچر کے تہوار دنیا میں ہر جگہ، جگہ پاتے ہیں، وہ ڈنمارک ہو یا پاکستان، میڈیا کی چکا چوند کہیں، یا پیسے والوں سیل کالز، ان میں عام لوگوں کے لئے یا کمزور کلچر والوں کے ایسا کچھ ہوتا ہے کہ وہ اس کو اچھا جاننے لگتے ہیں۔ ہم ایسے سادہ لوح ان تہواروں کے راستے میں بند باندھ کر سوائے خود کو مطمئن کرنے کے کچھ نہیں کرتے ، درحقیقت ہم ایسے تہواروں کی ترویج ہی کر رہے ہوتے ہیں۔

ویسے بھی دیکھا جائے تو ہمارے دامن میں تہواروں کے ذمرے میں کیا ہے، ایک مسلمان پاکستانی سال میں دو عیدیں مناتے ہیں، بسنت کو تہوار اب ہم نہیں کہتے، میلا کلچر کافی حد تک دم توڑ چکا، بیساکھی کے میلے پرانے پینجاب کے پاس ہی رہ گئے، ہمارے ہاں کہیں کہیں کبڈی میچ، کتوں کی لڑائیاں، دنگل، یا کچھ اور ایسی ملتی جلتی چیزیں جو گھر کے ہر فرد کے ذہن کو متاثر نہیں کرتیں۔ سچ بتائیے کہ اب ہمارے پاس ایسا کیا ہے کہ گھر کا ہر فرد اس میں شامل ہو سکے، ہوسکتا ہے اب سوچنے کے بعد آپ ایک فہرست میرے سامنے لا رکھیں لیکن ہمارے مقامی تہوار اور ان کو رواج دینے میں محنت کون کرے گا۔

گھر کے ہر فرد کو خوشی کے انجکشن کی ضرورت ہے، کل ہی میرے بھتجے نے کہا، چاچو چوبیس نومبر کو میری سالگرہ ہے آپ کہاں ہوں گے، وہ ابھی سے خوش ہے کہ اس کی سالگرہ آ رہی ہے، تہوار منانا شاید ہر شخص کی ضرورت ہے، یہ ایک خواہش کی طرح ہیں، اس کے راستے میں بند نہیں باندھا جا سکتا، البتہ چینلائز کیا جا سکتا ہے، ہم اپنے تہوار خود ڈیزائن کر سکتے ہیں اور مقامی سطح پر لوگوں کو اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہر برسات میں پودے لگانے کا تہوار، جب پہلی بارش آئے تو لوگ پودے لگانے شروع کردیں، موسم بہار میں کرکٹ میلا، اگر کبڈی نہ سہی ، اور درجنوں خیالات جو مقامی ہوں، جو لوگ خوشی سے کرنا چاہیں۔ اگر آپ لوگوں کی سوچ کو راستہ نہیں دے رہے اور جو وہ پہلے سے سوچ رہے ہیں اس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں تو میرے خیال میں ابھی آپ کو اور سوچنے کی ضرورت ہے۔

2 COMMENTS

  1. محبت بڑھانے اور قائم رکھنے والا پیغام جو ۔ بہت اچھا لکھا آپ نے ، میرا خیال ہے جس رسم و رواج سے کوئی نقصان نہ ہوتا ہو جیسے کرنے سے آپس میں ملاقات کا موقعہ ملے یا جس کے کرنے سے خوشی ملے ۔اس پر اعتراز کیوں ۔۔ ویسے تو خوشیاں کم اور غم زیادہ ہیں ہماری زندگی میں ۔

  2. “ہم اپنے تہوار خود ڈیزائن کر سکتے ہیں اور مقامی سطح پر لوگوں کو اس میں شامل کر سکتے ہیں”۔ ہم آپ کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ یہ کام محب وطن حکومتوں کا ہوتا ہے۔ اگر حکومتیں بھی مغربی تہواروں کو منانے میں معاون ثابت ہو رہی ہوں تو پھر کوئی مغربی تہواروں کو ہمارے ہاں عام ہونے سے نہیں روک پائے گا۔
    ہمارے زمانے میں سکولوں میں قائداعظم اور علامہ اقبال ڈے وغیرہ پر نہ صرف جلسے ہوا کرتے تھے بلکہ میلے ہوا کرتے تھے۔ ہر قسم کے میچ، دوڑیں اور ادبی تقریبات اس کا حصہ ہوا کرتی تھیں مگر سنا ہے اب یہ بھی مفقود ہو چکے ہیں۔
    ان مغربی تہواروں کے مخالفافین کی نیت پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مشرقی تہذیب کو مغربی تہذیب کی نظر ہوتے دیکھ کر غمزدہ ہیں۔
    ان مغربی تہواروں کے منانے کا سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہو رہا ہے جو اپنے مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہی مغربی اقوام چاہتی ہیں کیونکہ فی زمانہ ان کو ڈر اسی بات کا ہے کہ کہیں مسلمان دوبارہ دنیا کی بڑی طاقت نہ بن جائیں۔ یعنی وہ ابھرتی طاقتوں کو شروع میں ہی کچلتے جا رہے ہیں اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو میڈیا کے ذریعے مغربیت کا رنگ چڑھاتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اب تک عراق، لیبیا، یمن، افغانستان، شام وغیرہ کو تباہ و برباد کیا جا چکا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.