ابھی فیس بک کی ساری دیوار سوگوار ہوئی پڑی ہے ، عاصمہ جہانگیر آہ عاصمہ جہانگیر بھی چلی گئیں، کسی نے کہا کہ مظلوم کی آواز رخصت ہوئی، کسی نے کہا کہ آمریت کے خلاف ایک آواز خاموش ہو گئی، کسی نے کہا کہ جدو جہد کا ایک باب تھا بند ہوا، کسی نے کہا کہ اکثریت مردوں سے زیادہ مرد تھی وہ عورت۔۔۔۔۔اب احباب کیا کیا نہ کہیں گے، اور حد تو یہ ہے کہ کچھ روز پہلے ہی اس کی ذات ہر طرح کے حملوں کی زد میں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سال پہلے مختاراں مائی کے قصے میں ہم پہلی بار عاصمہ جہانگیر سے روشناس ہوئے تھے، اس نے روایت پسندی کے خلاف ایک آواز بلند کی اور ہم ابھی یونیورسٹی کے پہلے پہلے سال میں تھے، ایک عورت کا مردانہ وار بولنا ہمیں کہاں اچھا لگ سکتا ہے، ہمیں اسی دن سے یہ خاتون ناپسند ہو گئی تھی، پھر ہم اس کو اسی نظر سے دیکھتے آئے، ۔۔۔۔۔۔لیکن آہستہ آہستہ ہم نے لوگوں کو روایت سے ہٹ کر جاننا سیکھا، یہ سیکھا کہ ہماری سوچ سے ہٹ کر بھی کسی کی سوچ ہو سکتی ہے، ہماری جذباتی زندگی سے ہٹ کر بھی کسی کے جذبات ہو سکتے ہیں، سچ وہی نہیں جو ہم سمجھتے ہیں، سچ اس کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ میں نے اس بات کو برداشت کرنا سیکھا، سچ کہیے تو فوج کے خلاف عاصمہ جہانگیر جس طرح بات کرتی آئی ہیں مجھے ان کا انداز کبھی بھی پسند نہیں آیا۔
خاموش لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ انہیں ہر اونچی آواز اور زیادہ بولنے والا پسند نہیں آتا، اس گونگی سوسائٹی میں کتنے تھے جو عاصمہ جہانگیر کو پسند کرتے تھے، جیتے جی اس کی خامیوں کو شہتیر بنائے رکھا، اور آج وہ گذر گئی تو اس کی ہر خوبی نگاہ میں ہے۔۔۔۔اللہ تعالی مرحومہ کے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے، لیکن احباب سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ زندہ لوگوں کی قدر کرنا سیکھیں، ہمارے ہاں لوگ مر کر ہی معتبر کیوں ٹھہرتے ہیں، زندہ لوگوں کی یہاں قدر کیوں نہیں کی جاتی، ان کی خوبیوں پر روشنی کیوں نہیں ڈالی جاتی۔۔۔۔
احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
کاش کہ ہم لوگوں کی زندگیوں میں بھی ان سے رحم کا معاملہ کرنا سیکھ جائیں۔ اور ان کو زندگی میں بھی عزت و اعزاز سے نوازنا سیکھ جائیں۔