مردود کی مستقل فرنچائزیں اور ماہ رمضان

0
1527
لیجئے ماہ رمضان آیا چاہتا ہے۔۔۔۔کچھ گونج تو میں نے بھی سنی , سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی دوست کی
دیوار پر آویزاں یہ ریٹ پڑھئے

آلو بخارہ 120روپے سے بڑھ کر 200 روپے کلو،
خوبانی 100روپے بڑھ کر 150روپے کلو،
آڑو 60روپے سے بڑھ کر 100روپے کلو، 
اچھی کوالٹی کا سیب 200 روپے سے بڑھ کر 350 روپے کلو، 
عام سیب 150روپے سے بڑھ کر 250روپے کلو،
کیلا 60روپے درجن سے بڑھ کر150روپے درجن،
خربوزہ 40روپے کلو سے بڑھ کر 80روپے فی کلو ہوگیا ہے

کیونکہ ماہ رمضان سے میرا تعلق آپ لوگوں سے کچھ زیادہ ہے اس لئے اس مہینے کی حرمت کے لئے آواز اٹھانے کا حق  بھی کچھ زیادہ رکھتا ہوں، نیکیوں کے اس مہینے میں جب شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں تو مردود کمپنی کے پرانے اور مستقل فرنچائزی اپنے آقا کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتے۔  کافی سال پہلے جوہر ٹاون لاہور میں میاں مارکیٹ کے ساتھ لگے ایک رمضان بازار سے کچھ سیب خریدے، افطاری سے کچھ پہلے کا وقت تھا، نماز پڑھ کر گیا تھا اور دنیا ، دل کے کسی کونے میں دبکی بیٹھی تھی، دکاندار پر اعتبار کرنا مناسب جانا۔۔۔اس سے کہا سیب گلے ہوئے یا خراب ہوئے تو مجھے واپس آنا پڑے گا۔۔۔اس لئے ٹھیک ٹھیک سیب ڈالنا۔۔۔۔۔دکاندار نے موقعہ غنیمت جانا اور سارے دن کے دھتکارے ہوئے سیب اس شاپر میں ڈال دیئے ، میں نے بھی دوسری نگاہ ڈالنے کا تکلف نہ کیا، افطاری پر فروٹ چاٹ بننے کا مرحلہ آیا، شاپر کھلا تو عقدہ کھلا کہ مردود کی فرنچائز سے لے آیا تھا۔۔۔۔خیر بنا سیب کے فروٹ چاٹ بنی ، نماز مغرب کے بعد میں نے شاپر اٹھایا اور واپس اسی دکان پر چلا گیا، وہ صاحب بھی افطاری کرکے فارغ ہو گئے تھے۔۔۔۔میں نے اس کا جا کر شاپر پکڑایا اور اس نے آہستگی سے پیسے واپس پکڑاے۔۔۔۔نہ میں نے کچھ کہا اور نہ ہی اس نے کوئی تاویل پیش کی۔۔۔۔
چلیے چھوڑئے اس معمولی نوعیت کے واقعات درجنوں کی تعداد میں آپ کی جیب میں بھی بھرے پڑے ہوں گے۔۔۔۔۔اور یہ مثال بھی بارہا آپ سن چکے ہوں گے کہ جب یورپ میں کرسمس یا کوئی مذہبی تہوار آتا ہے تو اشئیا کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔
اس چیز کا ماتم کیا کریں جو ہم کر ہی نہیں سکتے، طلب اور رسد کی سانئس کو سمجھنے والے اس مصنوعی مہنگائی کو کسی مناسب دلیل کا جواز فراہم کر سکتے ہیں، اس لئے اشیئا کی بڑھتی ہوئی قیمت کا رونا بھی کیا رویا جائے۔۔۔۔۔لیکن اگر آپ نے بڑھی ہوئی قیمت بھی ادا کر دی ہے، دکان دار سے لیکر آڑھتی اور کسان تک ہر آدمی اپنے حصے کا منافع بھی لے چکا تو پھر کیونکر ناپ تول میں کمی کی جائے یا ملاوٹ شدہ، یا گھٹیا قسم کا مال فروخت کیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلئے وزن میں کمی زیادتی اور کوالٹی کا رونا بھی نہیں روتے۔۔۔تو کیا خیال ہے اس ماہ رمضان کوئی گدھے، کا گوشت اور چوہوں کا قیمہ، یا یوریا والا دودھ دہی، یا مردار جانوروں کی چربی سے بننےوالے تیل کے پکوڑے سموسے فروخت نہیں کرے گا؟؟؟؟

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.