سموگ کا روگ

0
1781

گذشتہ تین دنوں سے پنجاب کے کئی شہروں میں سموگ پھیلا ہوا ہے، کئی جگہوں پر حد نگاہ صفر تک جانے کی بات بھی سنی گئی ہے، ایسا کون سا پہلی بار ہوا ہے، ہر سال ایسا ہونے لگا ہے، ہر سال کچھ لوگ اندھے حادثوں کا شکار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہیں، ہاں بے چاروں کی ایسے ہی لکھی تھی، لیکن کوئی اس ماحول کو درست کرنے کی جستجو نہیں کرتا ، ہم ہر آفت کو آسمانی ٹھہرا کر اپنی زندگی میں مگن ہوتے چلے جاتے ہیں، کوئی ٹھہر کر ایک لمحہ بھی سوچنے کو تیار نہیں کہ یہ ہمارے ہی کرتوتوں کی سزا ہے۔ یہ سچ ہے کہ

ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، ہم نے دھوئیں اور زہر کی کاشت کاری کی اب ہم پر دھواں اور زہر برس رہا ہے، قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال، ماحول کو آلودہ کرنے والے کیمکلز کی بہتتات بھری زندگی، سائیکل سے موٹر سائیکل تک کا سفر ، گاڑیوں کی فراوانی، عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے کارخانے، ہمارا طرز بودو باش پنجاب کی دھند کی صورت اس پکی ہوئی فصل کی غمازی کرتا ہے جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بوئی تھی۔
لاہورشہر سے بہت باہر مال روڈ کی سٹرک بسانے والوں نے اس پر جو درخت ایستادہ کئے تھے آج بھی شہر کی ہوا کو صاف رکھنے کی قسم نبھاتے نظر آتے ہیں، لیکن یہ مٹھی بھر درخت بھی اب کیا کریں، ہر موٹر ان پر حملہ آور ہے، اب تو ان چند درختوں کی جان بھی خطرے میں ہے وہ بے چارے، انسانوں کی جان بچانے کا اوپائے کیونکر کریں؟
دھوئیں اور دھند کا امتزاج جس نے سموگ کا نام پایا ہے، اب پنجاب کی گلیوں پر چھائی رہی اور اس موسم میں نجانے کب کب حملہ آور رہے گی، اس سے پچھلے سالوں میں اس دھند نے ہماری زندگیوں کو عملی طور پر معطل کیا رکھا، سڑکوں پر کئی حادثات بھی ہوئے لیکن ہماری آنکھ نہ کھلی ، ہم اس کو ایک عام دھند سے تعبیر کر کے خاموش رہے، لیکن ابھی جب لوگوں کی سانس رکنے لگی ہے تو کچھ لوگ پکارے ہیں بھائی یہ دھند نہیں یہ سموگ ہے، دھوئیں اور زہر کی وہ پکی ہوئی وہ فصل جو ہم نے برسوں بڑی محنت سے کاشت کی تھی۔
لاہور پاکستان دنیا کا کوئی پہلا شہر نہیں جس پر سموگ نے حملہ کیا ہوا، دنیا کے سب صنعتی شہروں کو اس طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے، یہ صرف لاہور ہی کی ہی بات نہیں اگر دنیا کے دس بڑے سموگ ایفیکٹد شہروں کے نام لئے جائیں تو اس کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
بیجنگ ، چائنا
آہویز ، ایران
الن بٹور منگولیا
لاہور، پاکستان
نئی دہلی ، انڈیا
ریاض، سعودی عرب
قاہرہ ، مصر
ڈھاکہ، بنگلہ دیش
ماسکو، روس
میکسکو سٹی ، میکسیکو
http://www.dw.com/en/top-10-worst-cities-for-smog/g-17469135

سموگ سے بچاو کی تدابیر بتانے سے پہلے اس کے پیدا ہونے کے عوامل کو سمجھنا بہت ضروری ہے، سموگ ہوائی الودگی کی ایک ایسی قسم ہے جس میں مضر صحت کیمکلز اور گییسیں زمین کے قریب مقید ہو جاتی ہیں، ان میں نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، اوزون، دھواں، اور دیگر تابکاری عناصر شامل ہیں۔
مختلف قسم کے ایندھن، کوئلہ کا جلنا، موٹر کاروں کا دھواں، کارخانوں کی باقیات اور اخراج شدہ گیسیس، تابکاری عناصر، اور سورج کی روشنی کا مختلف عناصر سے کیمیائی عمل سموگ پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی زمینوں پر باقیات کو جلانا، فصلوں پر کیمائی عناصر کا ستعمال بھی اس میں حصہ دار ہے۔

سموگ کے مضر صحت اثرات پر کتابیں رقم کی جا سکتی ہیں، سانس اور جلد کی بے شمار بیماریوں کے علاوہ بچوں کی پیدائش پر ان کا وزن کم ہونا، بچوں کا پیدا ہونے سے پہلے ہی مر جانا، اور دوران پیدایئش مسائل کا شکار ہونا  اس کے مضمرات میں شامل ہے۔

اگر ہم سموگ پیدا کرنے کی تین بڑی وجوہات پر نظر دوڑائیں تو
کوئلہ جلانا
ٹرانسپورٹ امیشنز
روشنی اور ماحول میں موجود کیمکلز کا ملاپ
نظر آتیں ہیں۔
دنیا کے بہت سے ممالک اپنے شہروں کو گرین سٹی بنانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں، جس میں شہروں کی اندر کم سے کم کاربن پیدا کرنا، اور ایسے ٹرانسپورٹ کے ذرائع استعمال کرنا ہے جو ماحول دوست ہوں، ڈنمارک، سویڈن میں چلنے والی بہت سی بسوں پر کاربن ڈائی آکسائیڈ نیوٹرل کا نشان واضح نظر آتا ہے، شہروں کے مرکزی علاقوں میں موٹر کاروں کا داخلہ کم سے کم کرنے کے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں، لوگوں کو متبادل ذرائع آمدورفت جیسے موٹر سائیکل کی بجائے سائیکل پر آنے کی ترغیب دی جاتی ہے، شہریوں کو گرین لائف سٹائل سے زندگی رہنا سکھائی جاتی ہے، پچھلے کچھ عرصہ میں فرانس کی بہت سی عمارتوں پر سولر پینل یا گرین روفنگ دونوں میں سے ایک کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
پچھلے دنوں سویڈن کے شہر مالمو میں ایک کورس کے دوران ایک رہائشی کالونی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جہاں ماحول دوست لائف سٹائل کے اپارٹمنٹ بنائے گئے تھے، یہاں رہائشی اپنی ضرورت کی آرگینگ سبزیاں خود اپنے اپارٹمنٹ میں اگا سکتے ہیں، گھر کی چھتوں پر سبزیاں اور پودے لگانے کی جگہ بنائی گئی ہے، بجلی اور حرارت کے لئے سورج کی روشنی کی مدد سے سسٹم تیار کیا گیا ہے، گھروں سے باہر پرندوں اور چھوٹے جانوروں کے بسنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

ہمارے سیکھنے کے لئے ایسی سب بدیسی کہانیوں میں ایک ہی سبق ہے کہ ہم کچھ دیر کے زندگی کی تیز دوڑ سے ایک وقفہ لیکر یہ سوچیں کہ ہم بحثیت قوم کس سمت جا رہے ہیں، آپ کا وہ کارخانہ جو آپ نے محلے کے دل میں بنا رکھا کیا مناسب بھی ہے کہ نہیں، وہ بڑی گاڑی جس سے ناصرف نخوت جھلکتی ہے بلکہ وہ ماحول کو زیادہ آلودہ کرتی ہے کیا آپ کو واقع اس کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کے ایک کینال گھر میں چند مرلے پر آپ کی سبزی اگائی جا سکتی ہے؟ کیا اپنی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جنریٹر کی بجائے سولر پینل کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔

 

اب جبکہ ہمارے شہروں کی آبادی کنٹرول سے باہر ہو پھیل چکی، چھوٹے چھوٹے قصبوں اور محلوں میں درخت دیکھنے کو بھی نہیں ملتے، ہر گھر کے باہر ایک موٹر کار اور موٹر سائیکل ہے، ایسے میں ہماری آلودہ ہوا کو کون صاف کرے؟  یہ مسئلہ ہم نے پیدا کیا ہے تو اس کے حل کے لئے بھی ہمیں ہی بیدار ہونا ہو گا، ائیر کنڈیشنگ کو کم کرکے، سبز جگہوں کو بڑھا کے، شہروں میں کاربن کو نیوٹرلائز کر کے، آمدورفت پر کم ایندھن صرف کرکے، کم سے کم کوئلہ جلا کے،

 

ہمیں پاکستانیوں کا لائف سٹائل بدلنا ہو گا، موٹر سائیکل کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا، سائیکل والوں کو سٹرکوں پر جگہ دینا ہو گی، پیدل چلنے والے کو عزت دینا ہو گی، پبلک ٹرانسپورٹ کو پرموٹ کرنا ہوگا، گاڑی رکھنے کو مہنگا بنانا ہو گا ، ، جب ہم سبزہ بوئیں گے تو آکسیجن کی فصل تیار ہو گی، جب ہم دھواں بوئیں گے تو دھواں ہی اگے گا ناں۔۔۔۔

 

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.