Home سماجی گھورنا، دور تک اور دیر تک

گھورنا، دور تک اور دیر تک

3
گھورنا، دور تک اور دیر تک

گھورنا، دیر تک گھورنا، دور تک گھورنا، ہر شخص کو گھورنا شاید ہمارا قومی مشغلہ ہے، آپ ابتدائیے سے یہ بھی قیاس کر سکتے ہیں کہ کسی ستم رسیدہ بنت حوا کو تازہ تازہ اذن گویائی ملا ہے اور وہ نوحہ کناں ہے کہ جتنی بھی چادریں وہ اوڑھ لے ایکسرے کرتی نگاہیں اس کے بدن کے آر پار ہوتی رہتی ہیں، اس بدتمیزی اور بدتہذیبی کا شاخسانہ کہیں نہ کہیں سے ہمارا گھٹن زدہ روایتی کلچر ہی ہے جس نے چند لوگوں کو یہ مرتبہ سونپا کہ وہ باقیوں کو اچھے اور برے کی تفریق میں بانٹیں، ہمارا عمومی طور پر پر ججمنٹل ہونا بھی اس کی بنیاد ہو سکتا ہے، ہم ہر راہ چلتی عورت کو عزت دار یا کم عزت دار کے سرٹفیکیٹ تقسیم کرنے کے عادی ہیں اس لئے ہر کسی پر ایک دو، چار بھر پور نگاہیں ڈالنا اپنا فرض تصور کرتے ہیں۔

 

اگر آپ ایک عورت ہیں تو آپ اس رویے اور استحصال کا روز شکار ہوتی ہوں گی، اس لئے اگر زندگی کے پنتیس ، چھتیس سال گذار چکی ہیں تو اب تو اس رویے کی بدرجہ اتم عادی بھی ہو چکی ہوں گی، اور اگر آپ مرد ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس زیادتی کا احساس صرف اس وقت ہوتا ہو جب آپ کے ساتھ چند خواتین یا فیمیلی ہو۔ یہ رویے کبھی کبھار تو اتنے پرتشدد ہوتے ہیں کہ جوابی گھوری دکھانی پڑتی ہے، جن کی آنکھوں میں ابھی کچھ حیا باقی ہو وہ تو سمجھ جاتے ہیں کہ بس اس سے آگے اگلے کی دیوار شروع ہوا چاہتی ہے، اور بس کر جاتے ہیں لیکن بعض لوگ تو کسی بات پر بھی باز نہیں آتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ایک پولیس آفیسر دوست نے سنایا، وہ اپنی زوجہ کے ساتھ لاہور کے مشہور لارنس گارڈن میں بیٹھے تھے، ابھی شادی کے ابتدائی دن تھے اور طوطا مینا طرز کی جوڑی محسوس ہوتے تھے۔ اتنے میں چند نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا گروپ وہاں سے گذرا جس نے بھرپور گھوری سے نوجوان جوڑے کو سلامی پیش کی، کچھ دیر بعد جوڑے کو محسوس ہوا کہ اس گروپ میں سے ایک نوجوان جو بزعم خود خود کو خوش شکل سمجھتا ہو گا، اس گروپ سے الگ ہو جوڑے کے پاس سے پھر گذرا، اس کا مرکز و محور صرف خاتون تھیں اور وہ مسلسل گھورے جا رہا تھا، جوڑے نے اس کو اگنور کیا، جب تیسری بار پھر ایسا ہوا تو پنجاب پولیس کا زعم بھی کچھ بیدار ہوا، انہوں نے اس لڑکے کو بلایا اور کہا ، بھائی ادھر آ ذرا، وہ لڑکا بڑے انداز سے چلا آیا، انہوں نے بھائی ادھر آو تہمیں پتا ہے کہ میرا قد چھ فٹ ایک انچ ہے، عہدے کے لحاظ سے پولیس آفسر ہوں، کیا تم سچ میں سمجھتے ہو کہ یہ جو لڑکی میرے پہلو میں بیٹھی ہے تمہاری دلنشین گھوری سے اٹھ کر تمہارے ساتھ چلی جائے گی۔

ایک سال بعد پاکستان میں آیا ہوں اور اپنی فیملی کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلا ہوا ہوں، مجھے جگہ جگہ یہ محسوس ہو رہا ہے ، ہمارے معاشرے میں یہ بیماری بدرجہ اتم موجود ہے، اس گھورنے والوں کی فہرست میں بلا تفریق رنگ و نسل اور شخصی حلیہ ہر کوئی اپنا حصہ ڈالے ہوئے ہے۔ پرسوں لکشمی بازار لاہور کی ایک مشہور دکان کے فیملی روم میں فیملی کے ساتھ کھانا کھانے کے لئے گئے، اب فیملی ہال میں ایک دو ٹیبلز کے سامنے ایک پارٹیشن لگا کر اس کو پردہ داری کا ماحول بنایا جاتا ہے، میں نے سب سے پہلے کھانا کھا لیا ، جونہی اس پارٹیشن سے باہر قدم رکھا مجھے شدت سے لگا کہ سامنے بیٹھے ہوئے دو ٹیبلز کے لوگوں نے میرے سراپے کا بھرپور جائزہ لیا، مجھے ان لوگوں کے اس طرح دیکھنے سے شدید کوفت ہوئی، میں سیڑھیوں کی طرف بڑھ آیا میں نے ان ٹیبلز کی طرف ایک الوداعی نظر دوڑائی ان کی نگاہیں اسی پارٹیشن کی طرف مبذول تھیں۔ کل کی بات ہے ناران کے ایک ہوٹل پر بیٹھے ہم کھانا کھا رہے ہیں کہ سامنے بیٹھنے والے ایک ٹیبل کے لوگ مسلسل میری فیمیلی کو گھورے جا رہے ہیں،

شاید میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو گیا ہوں، کسی کی فیملی کو گھورنا، اور اپنی فیملی کے لئے ایسی گھوری برداشت کرنا یہاں بہت عام سا ہو گیا ہے۔ لیکن یہ سب مسئلہ باہر رہنے کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے، پچھلے سات برس پردیس میں رہنے کی وجہ سے میری کئی ایک عادات میں تبدیلی آئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کے افئیرز میں دخل نہ دیا جائے، ان کی بظاہری شکل و صورت کی بنا پر ان کو جج نہ کیا جائے، ان پر تبصرہ نہ کیا جائے، ان کو ایسی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے کہ گھورنے کا تاثر پیدا ہو۔ ہاں امریکہ کے چھ ماہ میں ، میں نے دیکھا کہ آپ کی نظریں کسی سے ملیں تو وہ مسکرا کر ایک مسکراہٹ لوٹا دیتا ہے، جب کے سکینڈے نیویا میں ایسی مسکراہٹیں صرف ساتھ کام کرنے والوں یا جاننے والوں کو ملتی ہیں، لوگ ایک دوسرے کے معاملات سے بہت بے تعلق سے رہتے ہیں، ایک دوسرے کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے دیکھا نہ ہو۔

اور جب آپ ایسے ماحول سے پلٹے ہوں اور اکثریت آپ کو کسی نہ کسی بنا پر نوٹس کر رہی ہو تو عجیب سا لگتا ہے، آپ کسی عوامی جگہ پر جا کر دیکھ لیں لوگوں کو اپنے کام سے زیادہ آپ کی آوٹ لک پر گھوری زیادہ پسند ہے، آپ نے کیا پہن رکھا ہے، کس طرح کے لگ رہے ہیں، معزز و معتبر ہیں یا لچے لفنگے، ایک ہی کیٹ واک میں لوگ آپ کے پر گن کر بتا سکتے ہیں، یا اپنے اردگرد کے حلقہ احباب کو بتاتے ہیں کہ دیکھو اس شخص کو اس کے پاس جو موبائل ہے وہ چائنا کا ہے، اصلی آئی فون نہیں، اور ہو سکتا ہے کوئی من چلا یہاں تک پوچھ لے، بھائی جان یہ موبائل اصلی آئی فون ہے؟ ہر بوڑھے کی طرح جو نوجوانوں کو سمجھانا اپنا فرض سمجھتا ہے میرے خیال میں ہمارے اس معاشرتی رویے میں بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے، شاید میں اب خود کسی کو گھورنے کے قابل نہیں رہا اس لئے لوگوں کو روک رہا ہوں، آپ اس کو کسی طرح بھی سمجھ سکتے ہیں، لیکن میری ذاتی رائے میں اس  معاشرتی قدر کی حوصلہ شکنی ہونے کی ضرورت ہے،

3 COMMENTS

  1. بہت کمال کا مشاہدہ ہے رمضان بھائی آپکا اور آپکی تحریر سے سکینڈینیوین حساسیت اور تہزیب کی وہ یورپین بے باکی عیاں دکھتی ہے۔ خدا کرے کے ادھر یار لوگ بھی یورپین تہزیب کو گالی دینے کی بجائے کچھ سیکھ لیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.