خواب دیکھنے میں ہرج ہی کیا ہے، پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر فروٹ بائیکاٹ مہم چلی تو دل میں یہ خیال موجزن رہا کہ اس طرح سماج کو موبلائیز کر کے کتنے مفید کام کئے جا سکتے ہیں، پاکستان کی بڑھتی ہوئی گرمی میں شجر سایہ دار یا غذائی اعتبار سے توازن کے قحط کی طرف گامزن اپنے لوگوں کو تھوڑے سے نمکیات اور وٹامن کی فراہمی بصورت شجر پھلدار کو ترویج دینے کی کاوش کرنے میں سوشل میڈیا کو چینلائز کرنے کی کوشش میں ہرج ہی کیا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے ہم پاکستان میں فروٹ فار لائف نام کے ایک پراجیکٹ کے ذریعے پھلدار پودوں کی ترویج کے لئے کوشاں رہے، چند ماہ پہلے بھی فیصل آباد کے نواح میں ایک رہائشی کالونی میں ہمارے پراجیکٹ کے تحت تین سو سے زائد پودے لگائے گئے۔ پودے ، درخت لگانے کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی انداز میں آگے کی بڑھ رہا ہے۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا کے توسط انڈیا میں بہت سے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر پودے لگانے کی مہم میں حصہ لیا، دو سال پہلے بھی ہم نے اسی طرز کے ایک مضمون کے ذریعے پاکستان کے اڑھائی ملین فیس بک یوزرز سے ایک ایک پودہ لگانے کی درخواست کی تھی، اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں ہے، لیکن اس سال ایک مضمون سے بڑھ کر ہم احباب سے رابطہ کر رہے ہیں ، میں نے ذاتی طور پرسوشل میڈیا پر ایکٹو دوستوں کو پیغامات بھیجے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پرمزاح ویڈیو بنانے والے احباب، زید، شام ادریس، رحیم پردیسی، اوزے راجہ، مینگو باز، یا اس طرز کے دیگر لوگ جن کے فالورز کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان کو پیغامات بھیجے گئے، اردو بلاگ لکھنے والے درجنوں احباب سے بھی رابطہ کیا گیا، بہت سے دوستوں نے مثبت انداز میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ڈی جی خان سے ہمارے ایک دوست عمران لودھی صاحب مقامی طور پر پودے لگانے کے ایک مہم کا آغاز کیا ہے، بہاولپور سے محکمہ زراعت کے ایک آفیسر محترم فہیم خان صاحب نے اپنے ضلع میں ہاتھ بٹانے کا وعدہ کیا ہے، اسلام آباد میں پاکستان سائنس فاونڈیشن کے ایک آفیسر محترم ناصر کھوکھر صاحب نے اسلا، آباد میں پودے لگانے اور کمپین میں ہاتھ بٹانے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح کئی غیر سرکاری اداروں کو بھی پیغامات بھجیے گئے ہیں جیسے ملت ٹریکٹرز کی طرف سے بھی اس مہم کو سپورٹ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
ہم جتنے دنوں سے اس مہم کو آغاز کئے ہوئے ہیں، چند ایک سوال بار بار پوچھے جا رہے ہیں، کہ وہ کون سے پودے لگائیں۔
ہر علاقے کے حساب سے پودوں کا انتخاب مختلف ہو سکتا ہے، پہلے پہل ہم صرف پھل دار پودوں پر ہی اصرار کر رہے تھے لیکن پاکستان میں پودوں کی کمی کے باعث اس موجود کمپین میں ہر طرح کے پودے لگانے کی استدعا کی گئی ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں اور لوئر سندھ میں پیپل، بوہڑ ، نیم، کیکر، سوہانجنا، شہتوت، دھریک، سکھ چین ، جامن، انار، بیری دیسی آم، لیمن ، فالسہ، انگور، کجھور، لسوڑھا، مٹھا، لوکاٹ بہت زیادہ توجہ نہیں چاہتے ،
کراچی کوسٹل ایریا میں کوکونٹ، کجھور اور چیکو کو جگہ دی جا سکتی ہے۔
پودوں کے انتخاب کا ایک طریقہ اور بھی ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھئے کون سے پودے اور درخت بغیر بہت توجہ کے سایہ اور پھل فراہم کر رہے ہیں، اس سے یہ مراد لیا جا سکتا ہے کہ اپ کے متعلقہ علاقہ کی ہوا ان خاص پودوں کے لئے ساز گار ہے، جیسے سٹون فروٹس مثلا آڑو، بادام ، آلو بخارا ، خوبانی وغیرہ کو قدرے ٹھنڈے موسم کی ضرورت ہوتی ہے، آم کو قدرے گرم موسم کی ضررورت ہوتی ہے، اس لئے یہ اپنے مزاج کے علاقوں میں بہتر نشوونما پا سکتے ہیں۔
دوسرا اہم سوال یہ پوچھا جا رہا ہے پودے کس جگہ لگائے جائیں؟
کچھ احباب کا کہنا ہے کہ وہ پودے اور درخت لگانے کے خواہشمند ہیں لیکن ان کے پاس ایسی جگہ دستیاب نہیں جہاں وہ پودے لگا سکیں۔ ہماری اپنی سمجھ کے مطابق پودے لگانے کی سب سے بہترین جگہ مختلف ادارے ہو سکتے ہیں، جیسے سکول، کالجز، یونیورسٹیز، ہسپتال، جیل خانہ جات، دیگر سرکاری ادارے، گرین بیلٹس وٖغیرہ، اس بات کے پیش نظر ہم نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایک ذمہ دار سے درخواست کی ہے کہ ان کے پاس جن سکولوں میں پودے لگانے کی جگہ ہے اس پر ہمیں پودے لگانے کی اجازت دی جائے کیونکہ ان کے پاس نا صرف جگہ ہے بلکہ ایسے احباب بھی موجود ہیں جو ان پودوں کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا سکیں۔ آپ بھی اس طرز کے اداروں سے بات کر کرکے ایسی جگہوں کو تلاش کر سکتے ہیں، اور حکومتیں تھوڑی سی دل چسپی لے کر اپنے اپنے دفاتر کو ہرا بھرا کرنے کی مہم کا آغاز کر سکتی ہیں، جیسا کہ پاکستان میں چودہ اگست کو ہر سرکاری ادارے پر چراغاں کیا جاتا ہے، جس پر بجلی کا خرچ اور لائٹس کا کرایہ اور دیگر اخراجات کو بند کر کے انہی پیسوں سے انہی عمارتوں میں شجر کاری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
کیا آپ کو مفت کے پودے کی ضرورت ہے؟
کچھ احباب پودوں کی مفت فراہمی کے لئے رابطہ کرتے رہتے ہیں، اور ان میں کئی آرگنائزیشنز کی ہم مدد بھی کرتے ہیں لیکن کیونکہ پودوں پر اخراجات صرف اور صرف ذاتی ڈونیشن کی مد میں آتے ہیں اس لئے ہمارے پاس اتنا بجٹ نہیں کہ ہر شخص کو پودا بانٹ سکیں، اس لئے ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے حصہ کا کم از کم ایک پودہ تو ضرور لگائیے۔
پودے کے لئے جگہ کا انتخاب اور تیاری
بہت سے دوست شجر کاری مہم میں جہاں دل میں سمایا وہیں پودے لگا دیتے ہیں، پودے کو پھلنے پھولنے کے مناسب جگہ اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ابتدا میں اس کے تنے کو کسی سہارے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے، اس لئے اگر آپ اس شجر کاری مہم میں پودہ لگانے جا رہے ہیں تو پودے کا گڑھا ایک آدھ دن پہلے تیار کر لیں، اگر اس جگہ زمین بہت سخت ہے تو گڑھا کھودنے کے بعد اس میں پتوں کی کھاد، بھل یا پودے کی بڑھوتری میں مدد دینے والا کوئی بھی میٹریل اس گڑھے میں ضرور ڈالیں تاکہ پودے کی جڑوں کو ابتدا میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اپنے حصے کا پود ا ضرور لگائیں۔
پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے ممالک میں بہت اوپر آتا ہے، پچھلے کئی برسوں میں یہاں موسم گرما خاصا زیادہ گرم رہا ، اس قسم کے سخت موسم کو اعتدال میں لانے کے لئے ہمیں بہت زیادہ شجر کاری کی ضرورت ہے، بڑے بڑے شہروں میں اشجار کے نخلستان پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پرانے زمانے کی ٹھنڈی سڑکوں کا تصور واپس لانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی کارنل یونیورسٹی کے ایک سبزہ زار میں کئی درختوں کے نیچے ایک ایک نیم پلیٹ لگی دیکھی ، جس پر لکھا ہوا تھا کہ یہ پودہ فلاں سال کی فلاں کلاس نے لگایا ہے، اسی طرز پر جامعات کے طلبہ کو موٹی ویٹ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جب کسی ادارے میں داخل ہوں، یا فارغ التحصیل ہوں تو اس کو یادگار کرنے کے لئے ایک پودہ لگا دیں، جب کوئی استاد کسی جامعہ سے ریٹائر ہونے لگے تو ایک اس سے ایک پودہ اسی ادارے کے کسی لان میں لگا دیا جائے ، تا کہ اس کی یاد کا ایک اور نقش اس ادارے میں رہے۔
پودے لگانے کے سو بہانے ڈھونڈے جا سکتے ہیں، میری خواہش ہے اس سال یکم اگست سے چودہ اگست تک بنام پاکستان ایک پودہ لگائیے۔ میں خود بھی پاکستان آ کر اپنے حصے کا پودوں لگاوں گا، میرے درجنوں دوست بھی اس مہم میں حصہ لیں گے، کیا سوشل میڈیا کے دیگر احباب بھی اس مہم کا حصہ بن پائیں گے، اس کو جواب چودہ اگست تک موخر کر لیتے ہیں۔ پودہ لگاتے ہوئے اپنی تصویر ہمارے فیس بک کے پیج پر بھیجئے اور فروٹ فل پاکستان کی اس مہم کا حصہ بن جائیے۔
https://www.facebook.com/fruitforlifepak/