ہر شخص ہے سنجیدہ ۔۔۔۔۔

0
1232
خود کو سمجھاتا ہوں
کہ اب جوانی نام کا دریا بہت دور رہ گیا
وہ گاوں جس میں سفید کنپٹیووں والے ادھیڑ عمر بستے ہیں
بس آنے والا ہے
پھر اس کے بعد کمر کو جھکائے ، کھانستے جانے والے بابوں کی بستی ہے ۔
خود کو سمجھاتا ہوں
کہ خود کو سنبھالو کہ
آنے والی بستی کا ہر شخص سنجیدہ ہے
یہاں لوگ بولتے ہیں، بات کرتے ہیں
کبھی کبھی مسکراتے ہیں
مگر قہقہہ کوئی نہیں لگاتا
خود کو سمجھاتا ہوں مگر
ابھی دل پر جوانی کا بچپنا سا طاری ہے
ذہن مجھ کو ڈراتا ہے
بتاتا ہے
کہ وہ وقت آنے والا ہے
جب لوگوں کی خاطر خود کو تم بدل لو گے
لب وہ لہجہ تبدیل کر لو گے
آنے والی بستی کا خوف مجھ پر طاری ہے۔
سوچتا ہوں میں
ایک پل کو ہنس لوں
جی کھول کر مچل لوں میں
کہ پھر آنے والی بستی میں ہر شخص ہے سنجیدہ
۔۔۔۔۔

نوٹ
ناسمجھی کے دور میں بہت سے نظمیں لکھیں، درجنوں کے حساب سے غزلیں جوڑیں، اور پھر کچھ شاعروں کو دیکھا تو سمجھ آئی ، کہ جو کچھ ہم نے لکھا وہ ادب کی مروجہ اقسام سے ہٹ کر ہے،یعنی کچھ اور ہے شاعری نہیں۔۔۔ یہ بے تکی سی باتیں جن کا مفہوم میرے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔۔۔آج بہت عرصے بعد خیالات سے کوئی تصویر نہیں بن پا رہی، کچھ لکھا نہیں جارہا۔۔۔۔اپنی عمر ڈھلنے کا ماتم ۔۔۔میرے الفاظ کے احاطے سے باہر ہے۔۔۔میرے بے ربط الفاظ کی مماثلت کسی ادبی صنف میں تلاش نہ کی جائے ۔۔۔

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.