کرپشن دیوی -شکوہ ء ظلمتِ شب

2
4007

کرپشن دیوی
میرے سامنے ایک سنگھار میز دھرا ہے، اس پر لگا آئینہ کسی سو سالہ پرانی
عمارت کے شیشے سے بھی بدترین ہے، یہ آئینہ دراصل ہمارے پورے کرپٹ معاشرے کا
عکس ہے، یہ میزچند سال پرانی ہے لیکن فرنیچر بنانے والے نے اسی آئینے کا
انتخاب کیا جو اسے سب سے سستا لگا ہو گا، ایسا بھی نہیں کہ یہ بہت سستا میز
ہے اس لئے اس پر آئینہ بھی سستہ ہے ، دراصل زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی
ہوس، رات و رات امیر بن جانے کا خواب اور سب سے بڑھ کر ہمارے معاشرتی
روایات کا بے شرم پن جس میں عزت کا معیار دولت ہے خواہ وہ معاشِ بد ہی
کیوں نہ ہو۔ ایسی کروٹیں ہیں جنہوں نے پیشہ وارانہ اقدار کو ہلا کر رکھ دیا
ہے۔ سب سے اچھا تھانیدار وہ ہے جو سب سے زیادہ حصہ اور بھتہ اکھٹا کرتا
ہو، جس کی بڑے ڈاکووں سے اٹھک بیٹھک ہو، جسے کرپٹ لوگوں کو نوازنا آتا
ہو،سب سے اچھا دکاندار وہ ہے جو ناقص مال اچھے دام پر بیچ سکے، جو جھوٹی
قسم بولے تو اعتبار آ جائے، ہر کام اور وعدہ وعدہ ء فردا پر اس ادا سے
ٹالے کے لوگوں سے جواب نہ بن پائے، سب سے اچھا سیاستدان وہ ہے جو مسلسل
جھوٹے وعدے کرتا چلا جائے، ایک آدھ پورا کر لے تو اس کا جتاتا رہے، ہر شخص
کو جھوٹی تسلی دے اور ہر کام زبانی جمع خرچ سے ہی کرنے کا عادی ہو، اچھا
استاد جس کی ٹیوشن اکیڈمی سب سے اچھی چلے، جو پڑھانے کے علاوہ نمبر بڑھانے
اور امتحانی نتائج پر اثر انداز ہونے کا بھی ہنر جانتا ہو، اچھا آفیسر وہ
جو صرف تعلق کی بنا پر ہر جائز و ناجائز کام کی حامی بھرے اور قانون کو
بوقت ضرورت اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہو، اچھا ماتحت جو سب اچھا ہے کہنے
پر ملکہ رکھتا ہو، خوشامدی اور ابن الوقت ہو، آفیسر کے ہر کام کو کر گزرنے
کا جذبہ رکھتا ہے۔۔۔۔۔
ہم ایسے سسٹم کا حصہ ہیں جہاں ہر شخص بساط بھر کرپشن کو جائز تصور کرتا ہے
اور کرپشن صرف وہی لوگ نہیں کرتے جن کی کرپشن تک رسائی نہیں یا پھر وہ اس
کرپشن کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ایک معمار اپنی تعمیر میں گھٹیا
میٹیریل استعمال کرتا ہے، ٹھیکدار ایسے ہوائی پل بناتے ہیں جو افتتاح سے
چند دن بعد عبرت کی علامت بن جاتے ہیں، بڑھئی گیلی لکڑی لگا کر خشک لکڑی کے
دام وصول کرتا ہے، پھل بیچنے والا خراب پھل ٹوکری کی نچلی تہہ میں رکھتا
ہے اور آنکھ بچا کر اسے آپ کے شاپر میں ڈال دیتا ہے، ہوٹل والا گھٹیا گوشت
خرید کر گاہکوں سے زیادہ پیسے وصول کرتا، سڑکوں کے کناروں پر اکثر ہوٹل
انجان گاہکوں کو دیکھ کر قیمتیں بڑھا دیتے ہیں، جگہ ایسی ہو کہ آپ کہ پاس
کو اورآپشن نہ ہو تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ڈرایؤر پٹرول ڈلوانے جائے
تو دوچار لیٹر کا ہیر پھیر کچھ معنی نہیں رکھتا، نوکر سودا سلف لینے جائے
تو چند روپوں کا بقایا ہضم کرنا عین جائز خیال کرتا ہے، ڈاکڑ لیبارٹری
والوں سے مل کر خوامخواہ کے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں، ادویات کی کمپنیاں زیادہ
بکنے والی ادویات کیلئے سستے متبادل کے لئے معیار پر کمپرومائز کر لیتی
ہیں، آجکل نارمل بچوں کی پیدائش نئے نئے ہسپتالوں نے معجزہ بنا دی ہے،
زمیندار ایک دن سپرے کرتا ہے اور اگلے دن اس کو مارکیٹ لے آتا ہے، فیکڑی
والا مزدور کو تنخواہ کم دیتا ہے اور اپنا زہریلہ فضلہ نہر کے پانی میں
ملا دیتا ہے، مزدور اپنا کام دل جمعی سے نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے ہاتھ جتنا
لگتا ہے وہ اس کو اپنا حو سمجھتا ہے اور اگر کوئی غلطی سے اصلاح پر مائل ہو
تو اس کا مطلب ہے اس محروم کو گنگا نہانے کا مو قع نہیں ملا۔۔۔۔۔مسجد سے
جوتے، کھمبوں سے تاریں، بجلی، ٹرانسفارمر، گٹر سے ڈھکن، سبیل سے گلاس،
مصوروں کی تصویریں، مصنفین کی تحریریں، ہمسائے کی دھوپ، قوم کا پیسہ تو
چوری تو ہوتا آیا تھا اب ہڑتال کی آڑ میں رہزنی اور دھماکے کے بعد مردہ
بدنوں سے گھڑیاں، عورتوں کے زیورات اور نقدی چرانے والے بے ضمیر لوگوں کی
فصل بھی اگ آئی ہے۔ لیکن میرے خیال میں جس کو جو میسر آیا اس نے کیا اب
مردہ لاش سے بالیاں نوچنے والا کو پنجاب بینک کرپشن کا موقع دیتی تو
یقیناًوہ اس کو ترجیح دیتا لیکن اس کی بساط نہ تھی جو اس سے ہو سکا اس نے
کیا۔۔۔۔۔ہم اپنے اپنے دائرے میں کرپشن کرتے ہیں اور دوسروں کی کرپشن کو
ناجائز سمجھتے ہیں، ہمارا المیہ ہی یہی ہے، مرچوں میں برادہ رنگ کر بیچنے
والا شام کو اشارے پر پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے تو نذرانے میں وہ رنگ سازی
کی پونجی کا کچھ حصہ کٹ جاتا ہے یا بٹ جاتا ہے، اب پولیس والا اس مرچوں
والے رنگ ساز کو گالی دے گا، اور ا س کے ظلم کو انسانیت سوز کہے گا اور اس
سے وصولی عین عبادت اور اگلے ہی روز پیٹ کی کسی بیماری سے ہسپتال پڑا ہو گا
جہاں کوئی ڈاکٹر مہینے کی آدھی کمائی کے برابر ایک نسخہ اسے تھما دے
گا۔۔۔
میں اگر اپنی ذات کا جائزہ لوں تو اپنی ذات لے لئے پاسپورٹ، شناختی کارڈ کے
حصول کی کسی قطار میں لگنا مناسب خیال نہیں کرتا اور میری کوشش ہو گی کہ
جب کبھی میں کسی ایسے دفتر جاوں تو ایک آدھ واقفیت کی پرچی میری جیب میں
ہو۔۔۔۔میں ائیر پورٹ پر اتروں تو کوئی پروٹوکول والا قطار توڑ کر میرا
سامان لے آئے اور میں سب سے پہلے باہر نکل آوں۔۔۔مجھے حق نہیں کہ میں کسی
وزیر کے پروٹوکول کے لیے بند سڑک پر احتجاج کروں۔۔۔کیونکہ جتنا میرا بس تھا
میں کر گذرا اب یہ اس کی ہمت ہے جو وہ کرنا چاہے۔۔۔۔ایک دوڑ ہے جس کا
انجام ملک کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔میری خواہش ہے کہ کم از کم اپنے آپ
کو اس دوڑ سے باہے نکال لوں ہو سکتا ہے ایک دو اور بھی اب ٹھہر جانا مناسب
سمجھیں۔۔
کیا اب ہمیں رک کر سوچنا نہیں چاہیے کہ آخر وہ کون سی حد ہے جہاں ہم کو
ٹھہر جانا ہے، جس کو اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں اگر وہ ناجائز ہے تو اس کو
جاری نہیں رکھنا۔۔۔کیونکہ ہمارا جائز کسی اور کا ناجائز ہے۔۔ہمیں سوچنے سے
بڑھ کر اپنے حصے کی کرپشن کو کم کرنا ہے کیونکہ
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

2 تبصرے

  1. Ramzan bhai u have stated the bitter realities of our society and people that is not going to ruin only this country but also exposing the hidden animal instincts which are concealed behind beautiful faces of humankind. Keep it up . .

تبصرہ کریں

برائے مہربانی اپنا تبصرہ داخل کریں
اپنا نام داخل کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.